زندگی اور شاعری کا مکالمہ

مجھے شاعری زندہ دیکھنا چاہتی ہے
مگر میری روح جو سانس کی ہمزادہے
وہ میرا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک چکی ہے
پھر بھی مجھ سے سوال بہت کرتی ہے
مجھے جب انسان سایوں کی طرح
نظر آتے ہیں
مجھے مشورہ دیتی ہے
جاﺅ چشمہ لگاﺅ
اب مجھے انسانوں کا ہجوم
گردنیںکاٹتا، مذہب کے نام پر
تڑا تڑ گولیاں چلاتا دکھائی دیتا ہے
میں جھلا کر چشمہ پھینک دیتی ہوں
شاعری نے زندگی کو پھر
میرے گلے میں بانہیں ڈالنے کو
بھیج دیا
ہاتھ میں قلم اور چشمہ لیے
میرے سامنے کاغذ پکڑلے
زندگی شاعری سے پوچھتی ہے
تم تو ہر روز نئے تجربے
کسی اور کے کاغذ پہ رقم کرلوگی
میں اپنی روح کو چشمے کے سہارے
کب تک ہاتھ پکڑے چلتی رہوں گی
میرا جی کرتا ہے
میں روح کو آزاد کردوں
پھر میرے پاس کیارہ جائے گا
دیکھا تھا نا غبارہ
گیس نکلنے کے بعد
زمین پہ گرجاتا ہے۔
اے میری روح
مجھے ایسا دن نہ دکھانا
اپنی آزاد ی سنبھال اور جا
مری شاعری لوگ پڑھتے رہیں گے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*