آسیب

آسیب کہو تمہیں کس نے کہا
ہم دشت کے باسی گور پرست ہیں
ہم مسکونِ کوہ اندوہ پرست ہیں
ہمیں جینے سے کوئی غرض نہیں
ہم دشت کے باسی گور پرست ہیں

یہ امر تمہیں کس نے ہے دیا
ہر طفل ہمارا
جی جان سے پیارا
تم لوٹ لو اس سے چین کے گیت
تم چھین لو اسکی متاعِ زیست

آسیب کہو نہ
تمہیں کیسے یہ معلوم پڑا
کہ ہم کو بوئے خون پسند ہے
گلو میں ہمارے قاتل کی کمند ہے
کہ ہم کو بوئے خون پسند ہے

آسیب کوئی تعویذ بتلاو ¿
آنکھیں اب ہماری نم نہیں ہوتیں
چہروں کی وحشت کم نہیں ہوتی
ہم بحرِ خشم میں ڈوب رہے ہیں
ہر دور میں پر آشوب رہے ہیں

آسیب تم ساری باتیں چھوڑو
جانے کی قیمت کیا لو گے
زندگی کی قیمت کیا لو گے

سب مال و حشم ہم وار گئے
جیون کی بھی بازی ہار گئے
ہم ضعیف الحال ، فروماندہ
نہیں نعش اٹھانے کو کاندھا

تم ہم سے بہا اب کیا لو گے
جانے کی تم قیمت کیا لو گے
جانے کی تم قیمت کیا لو گے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*