غزل

(آج کی با شعور عورت کے نام)

یوں تو دہلیز پہ لا کر بھی بٹھائی گئی میں
دھول تھی راہ گزر کی ،سو اُڑائی گئی میں

ایک تکیہ تھی کہ جی چاہا تو سرکایا گیا
ایک چادر تھی کہ بستر پہ بچھائی گئی میں

اصل تصویر مری تم بھی نہ پہچان سکے
جیسا چاہا گیا ویسی ہی دکھائی گئی میں

میں نے دربار میں جرا ءت کا سبق عام کیا
بے ردا شام کے بازار میں لائی گئی میں

جنگ میں مالِ غنیمت کی طرح بانٹا گیا
امن میں جشن کا سامان بنائی گئی میں

میری تخلیق نے تاریخ کو سو رنگ دےے
پھر بھی تاریخ سے کس طرح مٹائی گئی میں

یاد رکھا گیا عنوان کی صورت تم کو
ایک قصے کی طرح دل سے بھلائی گئی میں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*