بھنورے

چند برسوں میں ہی ہمارا نواحی علاقہ اپنا سکون اور چین کھو کر شہر کا مصروف ترین حصہ بن چکا تھا۔ ائیرپورٹ کی طرف جانے والے دو رویہ سڑک کے کناروں پر مارکیٹ،پلازے اور ٹرانسپورٹ کے اڈے بنا دئیے تھے۔ سڑک کے ساتھ جڑے کچے مکانوں کوگراکر مالکان نے گھروں کے بیسمنٹ‘دکانیں اور دفاتر بنائے د ئیے تھے۔ پیسے کی ریل پیل نے چاروں طرف کا نقشہ بدل ڈالا تھا۔ علاقے میں اب نو دولتیوں نے ڈیرے جمانے شروع کر دئیے تھے۔نئے بسنے والے لوگوں نے ایک عجیب سی اجنبیت کی فضا بنادی تھی۔ سٹیلائٹ ٹائون‘چلتن ٹائون‘شہباز ٹائون اور دوسرے نئے ہاوسنگ سکیموں کے مقابلے میں بڑے بڑے گھر بننے لگے تھے۔
باپ دادا کے زمانے سے رہنے والے سیون ٹائپ کے ہمارے چند گھر رہ گئے تھے جن پر کاروباری حضرات گاہے بگاہے بری نگاہ ڈالتے تھے۔میں نے ایک دن بابا سے مکان فروخت کرنے کی بات کی تو وہ غصے سے لال پیلے ہوگئے اور کہا ” ہمارے باپ دادا کی نشانی ہے اسے بیچنے کی بات کی تو سمجھو اپنے پرکھوں کا سودا کیا“۔
بابا کی بات سن کر میں شرمندہ ہوا اور کچھ عرصے بعد دوستوں نے مشورہ دیا کہ اتنا بڑا گھر ہے اس کے بیرونی حصے میں جو چھوٹا سا باغ ہے اسے کچھ فلیٹس بنا کر کرائے پر دے سکتے ہو۔ میں نے بابا کو بمشکل اس بات پر راضی کیا لیکن اس کی سزا مجھے یوں ملی کہ بابا مجھے چھوڑ کر چھوٹے بھائی کے پاس گائوں چلے گئے۔ میں نے کچھ عرصے میں بینک سے قرض لے کر چار فلیٹس بنا دئیے۔
وقت اورحالات کے بدلتے دھارے نے سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا۔روایتی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ دوستی بھائی بندی اور قربت کے معنی چند برسوں میں تبدیل ہونے لگے ۔ اب شادی اور غمی کے دنوں کے علاوہ کوئی کسی کی خبرنہیں لیتا ۔ کنکریٹ گھروں کی طرح اب دلوں کو بھی پتھر بنانے کارواج ہونے لگا تھا۔ ہماری گلی میں دوچار سا ئیکلوں کی سواریاں تھیں اب ہر گھر کے سامنے موٹر سائیکل اور گاڑی راستہ روکے نظر آتیں ہیں۔ خصوصا کابلی گاڑیاں رکھنا جیسے فیشن بنتا جارہا تھا تھا۔
پیسے کی ریل پیل نے میرے اندر بھی عجیب سی تبدیلی پیدا کردی تھی۔ ایڈوانس میں آنے والی رقم اور ہر مہینے ساٹھ ستر ہزار کی رقم جس سے بینک کا قرضہ ادا کرنے کے بعد بھی خاصی رقم بچ جاتی تھی میں دوستوں کے ساتھ انجوائے کرتا سیر سپاٹے اور پکنک کے پروگرام بنانے میں مگن رہتا۔ اس دوران دوست کبھی کبھی رات کی محفل بھی سجاتے اور ہم انجوائے کرتے۔
میرے فلیٹس کے اردگرد خاصے کمرشل پلازے اور کاروباری بنے جن کی وجہ سے میں نے فلیٹس کے کرایوں میں بھی اپنی مرضی سے اضافہ کردیا ۔ اب کرایہ داروں میں چند مہینوں میں تبدیلیاں آنے لگیں۔
راشدہ اس کی دو بیٹیاں اور بوڑھی ماں نے فلیٹس میں آنے کے تیسرے مہینے سے کرایہ دینے میں حیلے بہانے شروع کر دئیے۔ راشدہ ایک این جی او میں کام کرتی تھی۔ اس کی ماں سلائی کڑھائی سے گھر اور کرائے میں اپنا حصہ ڈالتی تھی۔ میں نے ایک دو مرتبہ انھیں کرائے کے سلسلے میں سخت تاکید کی تو اماں نے اپنے آنسوئوں اور بے بسی کے باعث مجھے چپ کرا دیالیکن میں اندر ہی اندر کڑھ رہا تھا۔ ایک تو ایڈوانس رقم بھی نہیں دی دوسرے کرائے میں بھی کئی کئی دنوں تک تاخیر ہوتی ہے ۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ آنے والے مہینے انہیں فلیٹس خالی کرنے کا کہوں گا‘ بس اب بہت ہوگیا۔
اگلی صبح بابا کی طبیعت کی خرابی کی اطلاع آئی تو میں گائوں کی طرف نکلا ۔سڑک پر مڑتے ہوئے راشدہ کھڑی نظر آئی میں نے اس کی بےچینی اور بار بار گھڑی دیکھنے سے اندازہ لگایا کہ اسے کوئی پریشانی ہے ۔ میں گاڑی قریب روک کر توجہ حاصل کرنے کے لئے اس کی طرف دیکھا مگر اس نے دوسری طرف دیکھنا شروع کیا۔ مجھے عجیب لگا اور قدرے غصہ بھی آیا میں گاڑی ریورس کرکے کھڑی کی اور اتر کراس سے بات کرنے آگے بڑھا ۔اس دوران اس کے دفتر کی گاڑی آئی اور وہ دوپٹہ چہرے پر لپیٹتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ راستے بھر میں راشدہ کے روئیے اور غرور بھرے انداز پر کڑھتا رہا‘ جانے کیا سمجھتی ہے خود کو ۔
میں نے سوچ لیا کہ واپس آتے ہی اسے فلیٹ خالی کرانے کا کہہ دوں گااوربس‘ہفتہ بھر گائوں میں ابا کے پاس رہا ۔ اس دوران ماموں کی بیٹی سے میرے رشتے کی بات ہوئی میں نے صاف انکار کردیا اور اپنی پسندکارشتہ ڈھونڈنے اور شادی کرنے کا فیصلہ سنا کر واپس لوٹا۔
شہرکی زندگی کے اب اتنے عادی ہوگئے تھے کہ اب گائوں میں چند دنوں میں بیزاری سی ہونے لگتی تھی۔ دوستوںنے میری واپسی پر دعوت کا اہتمام کیا ۔وہاں پہلی بار راشدہ کی خوب صورتی اور ناز و ادا کا ذکر ہوا۔ امجد نے کہا ” ہمارے جنرل اسٹور سے سودا لیتی ہے اس کی آنکھیں بہت خوب صورت ہیں“۔
انکل سلیم نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ” اس کے بارے میں سوچنا نہیں ۔پہلے ہمسائے کاحق ہوتا ہے میں ان کا خیال رکھتا ہوں“۔
میں نے انکل کو چھیڑتے ہوئے کہا ” بھابھی کے انتقال کے بعد آپ ہمسایوں کا کچھ زیادہ خیال نہیں رکھنے لگے“۔ سب دوستوں نے میری بات سن کر قہقہہ لگایا۔انکل سیلم اس بات پر ناراض ہوکر چلا گیا۔ سب کاموڈ خراب ہوگیا اور ہماری محفل سمٹ گئی۔
راشدہ اب میرے اعصاب پرسوار رہنے لگی۔ میں اسے فلیٹ سے نکالنے کا ارادہ کرچکا تھا لیکن اس کی خوب صورتی اور ناز وادا کے تذکرے سن کر اسے قریب سے دیکھنے کے بہانے ڈھونڈنے لگا۔ چند دنوں میری یہ خواہش پوری ہوئی ۔آدھی رات کوراشدہ گھبرائی ہوئی میرے پاس آئی اور کہا ”آپ کے پاس گاڑی ہے تو۔۔۔ ۔ “۔
” جی جی گاڑی ہے بتائیں میں کیا خدمت کرسکتا ہوں“۔
” وہ دراصل اماں کی طبیعت خراب ہوئی ہے ۔ انھیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے“۔
میں نے فورا گاڑی نکالی اماں کو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ لے گیا۔ ڈرپ لگا پھر ڈاکٹر نے دوا ئوں کی پرچی دی ۔میں قریبی میڈیکل اسٹور سے دوائیں خرید لایا پھر راشدہ کی اماں کوواپس لے آیا ۔راشدہ کی بچیاں فلیٹ کے سامنے کھڑی رو رہی تھیں ۔ راشدہ نے گاڑی سے اترتے ہی بچیوں کو گلے لگایا۔ اماں کو اندر پہنچا کر نکلنے لگا تو راشدہ نے پہلی بار تشکر بھرے لہجے میں میرا شکریہ ادا کیا اور مجھے دوائوں کے پیسے دینے لگی میں نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ” رہنے دیں‘ آپ میرے کرایہ دار ہیں اتنا تو میرا بھی حق بنتا ہے‘ آپ بس اماں کا خیال رکھیں‘کوئی ضرورت ہو تو مجھے میسج کرلیں“۔
راشدہ کی آنکھوں میں آنسو رواں دیکھ کر میں اجازت لئے بغیر نکل گیا۔
راشدہ کا شوہر چار سال قبل ایک حادثے میں فوت ہوگیا تھا۔ جس کے بعد راشدہ نے بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے گھر سے نکل آئی تھی۔ ماں کے بار بار تقاضوں کے باوجود اس نے دوسری شادی سے صاف انکار کردیا تھا۔ یہ ساری باتیں جاننے کے بعد میرے دل میں راشدہ کے لئے بڑی حد تک نرمی پیدا ہوگئی تھی۔ اب میری کوشش ہوتی تھی کہ میں کسی نہ کسی طرح راشدہ اور اس کے بچوں کے کسی کام آئوں۔ مگر راشدہ کسی کی مدد اور ہمدردی کو پسند نہیں کرتی تھی ۔ اس کا کھلتا چہرہ اور پرکشش انداز سب کی توجہ حاصل کرتامگر راشدہ کسی کی پرواہ نہیں کرتی۔ انکل سلیم اکثر راشدہ کے بچوں کو کھانے پینے کی چیزیں اور تحفے دے کر راشدہ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور راشدہ کو راستے میں روک کر اپنی خدمات پیش کرتا ۔ دوسری طرف امجد اور ٹھیکدار اکرم بھی کسی نہ کسی طرح راشدہ کی ماں کے پاس طبیعت کے پوچھنے کے بہانے آتے جاتے۔ راشدہ اس بات پر ماں سے لڑتی اور ماں کو باور کراتی کہ یہ اچھے لوگ نہیں ہیں ان کی نیتوں میں فتور ہے۔
میں نے کابلی گاڑیوں میں کچھ پیسے لگائے تو کچھ عرصے باہر رہا اس دوران پتہ چلا کہ انکل سلیم نے راشدہ کی بیوگی کو سہارا دینے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں ہیں۔ امجد نے راشدہ کو اظہار محبت کا پیغام دیا ہے اور سامنے کے جنرل اسٹور کے مالک نے اس کو موبائل نمبر دینے کی خواہش کے ساتھ دوستی کا پیغام بھےجا ہے۔
راشدہ اب چادر کی بجائے پورے برقعے میں آنے جانے لگی ۔ مجھے وہ اس لباس میں اور اچھی لگنے لگی تھی ایک دن کرایہ دینے آئی تو میں چاہنے کے باوجود اس سے دل کی بات نہیں کہہ سکا۔ راشدہ کاچہرا اترا ہوا اور آنکھیں بھیگی ہوئی سی تھیں۔ وہ جاتے ہوئے کہنے لگی ” رحیم بھائی! میں کل اپنے ماموں کے گھر شفٹ ہورہی ہوں لیکن جاتے ہوئے یہ پیغام آپ اور آپ کے دوستوں کے لئے امانت کے طور پر چھوڑے جارہاہوں“۔
میں نے کہا” بیٹھ کربات کرتے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔۔ “۔
راشدہ غصیلی آنکھوں سے میرے طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ” بیوہ ہونے کا مطلب سمجھتے ہیں آپ۔۔۔۔۔‘ بیوگی۔۔۔مرد کے بغیر۔۔۔۔شوہر کے بغیر گزارنے والی زندگی‘یہ جو آپ لوگوں کا علاقہ ہے اس میں دنوں میں مالدار بننے والے ہر چیز پیسے سے خریدنے کے خواہش مند ہیں‘چاھے عزت و غیرت اور کسی بیوہ اور مجبور عورت کا جسم ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔ میں بوڑھے انکل سلیم کی جوان بیوی نہیں بن سکی۔۔۔۔۔‘امجد جیسے اوباش کی خواہش پوری نہیں کر سکی۔۔۔۔‘ آصف کے جنرل اسٹور کے اندرونی کمرے تک نہیں گئی اور آپ کے اخلاق سے بھری ہوئی دوستی اور قربت کی خواہش پوری نہیں کر سکی۔۔۔۔۔۔اس کے لئے معذرت خواہ ہوں“۔
میں اس کی باتوں کا جواب دینے کی ساکت کھوچکا تھا ۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں رکوں،جائوں یا اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر معافی مانگ لوں۔ راشدہ نے میری شرمندگی اور گھبراہٹ کو محسوس کیا تو چادر سے منہ ڈھانپ کر باہر کے دروازے سے نکل گئی اوراچانک دہلیز کے پار ہونے سے پہلے رکی اور قدرے دھیمی آواز میں کہا ” میں قربت کی خواہش پوری نہےں کر سکتی۔ میں سب سمجھتی ہوں‘ سر کی چادر ڈھلک جائے تو مرد عورت کو فاحشہ کےوں سمجھنے لگتے ہیں “۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*