میں وہ اور وقت

سفینہ گزشتہ سولہ سال سے کنیڈا میں مقیم ہے۔ عمر اندازاً پچاس برس ہوگی۔ ماہ و سال کی گردش نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ خاصی خوبصورت، بلا کی ذہین اور بہت پر کشش عورت ہے ۔اس کے چہرے اور رکھ رکھاو میں کوئی ایسی بات ضرور ہے کہ انسان خود بخود اس کی جانب کھچتا چلا جاتا ہے۔ پہلی نظر میں بہت سنجیدہ اور بارعب جیسے کسی سکول کی پرنسپل ہو۔ جس سے قربت ہو جائے اس کے لیے ریشم جیسی نرم۔ چہرے پہ ہمہ وقت مسکراہٹ لیے ایک پر اعتماد شخصیت۔ انتہا کی خوش لباس اور سمارٹ عورت جسے اپنے آپ کو کیری کرنا آتا ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو یہاں گھر اور باہر کی گاڑی بیک وقت کھنچتی دیسی عورتوں میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ باقائدگی سے جِم جانا، مصوری اور سوئمنگ کرنا اس کے مشاغل ہیں۔ اس کے ہر انداز کی نفاست ظاہر کرتی ہے کہ اس کا تعلق یقیناً اپر کلاس گھرانے سے ہے۔ عموماً مغربی لباس میں رہتی ہے روانی سے انگریزی اور اردو نہایت شستہ لہجے میں بولتی ہے۔
وہ سگریٹ بہت پیتی ہے۔ مغربی معاشرے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں اکثر خواتین سموکنگ کرتی ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر دیسی عورت سگریٹ پیے تو گورے اور دیسی دونوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ دیسی یوں پریشان کہ انہیں اپنی روایات اور کلچر خطرے میں نظر آتا ہے۔ گورے اس لیے حیران کہ ان کے ذہنوں میں مشرقی عورت کا ایک مخصوص خاکہ ہے۔ ان کے مطابق مشرقی لوگ بہت قدامت پرست ہیں۔ اپنی عورتوں پر بے جا پابندیاں لگاتے ہیں اس لیئے ان کی عورتوں میں خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے، کجا یہ کہ دھڑلّّے سے سگریٹ پیئیں۔ وہ عام دیسی عورتوں جیسی نہیں ہے۔ مسکرا کر دیکھو تو جواباً مرد و زَن کی تخصیص کیے بِنا مسکرا دے گی۔ اسے دیکھ کر ان کے ذہن میں موجود تاثر کو ایک جھٹکا سا لگتا ہے، اسے خوشگوار حیرت کا نام دیا جا سکتا ہے۔کئی بار تو کسی گورے یا گوری نے اپنی حیرت کا برملا اظہار بھی کیا۔
لگتا ہے تم کافی عرصہ سے سگریٹ پیتی ہو ، ہم نے کسی انڈین عورت کو سگریٹ پیتے نہیں دیکھا، کیا تم واقعی انڈین ہو؟
یہاں پر ہر دیسی کو انڈین سمجھا جاتا ہے حالانکہ وضع قطع کے لحاظ سے وہ کہیں سے بھی انڈین نہیں دِکھتی۔
وہ مسکرا کر صرف اتنا ہی کہتی ہے کہ نہیں میں پاکستانی ہوں یہ سن کر سوال کرنے والے کا منہ حیرت سے کھلا رہ جاتا ہے۔
کیا مسلمان عورتوں کو سگریٹ پینے کی اجازت ہے؟ میرا مطلب ہے کہ پاکستانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے ساختہ ہنس کر کہتی ہے ہاں میں پاکستانی ہوں۔ اور ہمارے مذہب میں صرف نشہ آور چیزوں کی ممانعت ہے۔ ہمارے گاوں اور دیہات میں رہنے والی کئی خواتین حقّہ پیتی ہیں بلکہ عرب ممالک کی خواتین میں بھی یہ رواج عام ہے۔ یہ تو ایک عادت ہے، بری عادت۔ آج سے سو سال پہلے کرسچن عورت کو بھی بہت کچھ کرنے کی اجازت نہیں تھی پر اب تو ایسا نہیں ہے۔
ہاں، تم شائد ٹھیک کہتی ہو، یہ کہہ کر سوال کرنے والا لاجواب ہو کر چپ ہو جاتا ہے۔ سوال و جواب کا سلسلہ بس یہیں تک محدود رہتا ہے۔ گوروں کی یہ ہی عادت اچھی ہے کہ وہ زیادہ بحث نہیں کرتے۔
دیسی منافقین زبان سے تو ک ±چھ نہیں کہتے مگر کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے تیزی سے گزر جاتے ہیں جیسے کسی نے ان کی دم پر پیر رکھ دیا ہو۔ یہ نظریں اس وقت اور بھی زہریلی ہو جاتی ہیں جب وہ اپنے بیٹے کی موجودگی میں سگریٹ کے دھویں سے مرغولے بناتی ہے۔ اور دونوں کسی کی پرواہ کئے بغیر ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ گو ایسا شاز و نادر ہی ہوتا ہے مگر ہوتا ضرور ہے۔ سفینہ ان تمام نظروں سے لا تعلق اپنی بالکنی میں، مال کے باہر سموکرز کے لیئے مخصوص ایریا میں یا بلڈنگ کے نیچے واقع چھوٹے سے پارک میں مزے سے دھواں اڑاتی رہتی ہے۔ میں نے پہلی بار اسے یہیں دیکھا تھا۔
مسکرا کر سلام د ±عا کر لینا اور بات ہے پر بلا وجہ کی دوستیاں پالنا ا ±س کے مزاج کا خاصا نہیں۔ دوستی کے لیئے مزاج کی ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ اپنی ذات کے تنگ و تاریک خول میں رہنے والوں کے مزاج اور سوچ میں بھی تنگ نظری ہوتی ہے۔ اِس تنگ نظری کو برداشت کرنا اس کی مجبوری نہیں۔ اسے اپنے آپ میں خوش رہنا آتا ہے اور یوں بھی اپر کلاس کی عورت کی خ ±و ب ±و وقتی طور پر دب بھی جائے تو ختم نہیں ہوتی کہیں نا کہیں نظر آ ہی جاتی ہے۔
وہ تین بیڈ روم کے اپارٹمنٹ میں بیسویں منزل پر اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے۔ یہ نسبتاً مہنگے اپارٹمنٹ ہیں جہاں رہنا ہر کوئی افورڈ نہیں کر پاتا۔ اس علاقے میں بہت سی اپارٹمنٹ بلڈنگز ہیں۔ اِن عمارتوں میں مختلف قومیتوں سے تعل ±ق رکھنے والے افراد رہتے ہیں۔ یہاں جوان کینڈین گورے بہت کم ہیں مستقل بنیاد پر رہنے والے گوروں کی اکثریت ان بوڑھوں پر مشتمل ہے جو اپنے علاقے کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ زیادہ تر گورے یہاں سے دوسرے علاقوں کی جانب منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ امیگرینٹس کا علاقہ ہے۔ لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ہر کوئی اپنے حالات کے حساب سے ٹھکانے تبدیل کرتا رہتا ہے۔
بھیڑ بھاڑ کے عادی دیسی لوگ دور دراز کے علاقوں میں رہنا پسند نہیں کرتے کیوں کہ ان علاقوں کی خاموشی اور سکون انہیں پریشان کرتا ہے۔ انسانی فطرت بھی ایک عجیب معمہ ہے کہ تلاش تو سکون کی ہوتی ہے اور مل جائے تو بے چینی شروع ہو جاتی ہے۔ سَنّاٹا کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ ابتدائی انسان گروہی شکل میں اس لیے رہتے تھے کہ وہ کرّہ ارض پر بسنے والے دیگر جانداروں کی نسبت کمزور تھے۔ اس جِبلّت نے آج تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اب گروہ قومیتوں رنگ و نسل، مذاہب اور زبان کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ آج بھی وہ اپنے جیسوں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ گروہی شکل یہاں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے۔ زبان کی کشش کا صحیح اندازہ پردیس میں ہوتا ہے یہ اجنبیوں کو بھی قریب لے آتی ہے۔ دنیا کی ہر زبان ایک طرف پر جہاں چند مانوس لفظ س ±نائی دیں تو نئے آنے والوں کی طبیعت ایکا ایکی بحال ہو جاتی ہے۔
نقل مکانی کوئی آسان عمل نہیں انسان حالات و ضروریات کی بنا پر نقل مکانی تو کر لیتا ہے، دوست محب، عزیز و اقارب اور ایک جمے جمائے سیٹ اپ کو خیر باد کہنا آسان نہیں ہوتا۔ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے پلتا بڑھتا ہے اس زمین کی کشش ایک ہوک کی طرح ہمیشہ اس کے اندر رہتی ہے۔ میری دادی اپنی سر زمین کو یاد کر کے اکثر آبدیدہ ہو جاتی تھیں تو میں کم عمری کے باعث کچھ سمجھ نہیں پاتا تھا۔ اب میرا وہاں کوئی نہیں ہے، وہ گلی محلے جہاں میرا بچپن گزرا ہے کی یاد کبھی بے طرح ستاتی ہے تو دادی یاد آ جاتی ہیں۔ کم عمر افراد یہاں کے معاشرے میں نسبتاً جلدگھل مِل جاتے ہیں۔ دیسی ایمیگرنٹس عموماً دوغلی یعنی منافقت بھری زندگی گزارتے ہیں۔ وہ دو مختلف تہذیبوں کے درمیان مستقل پِستے رہتے ہیں ۔گھر میں کچھ اور باہر کچھ، البتہ بڑی عمر کے لوگ عموماً اداس رہتے ہیں۔
یہاں لوگ اپنے اپنے کاندھوں پہ سنہرے مستقل کے خوابوں سے بھری اَن گِنّت گٹھریاں لادے چلے آتے ہیں۔ پہلا جھٹکا تو اس وقت لگتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ان کی انمول ڈگریاں یہاں پہ بے مول ہیں۔ بڑے بڑے گھروں میں رہنے والوں کو کابک نما اپارٹمنٹس اور بیس مینٹس میں رہنا پڑتا ہے۔ جاب مارکیٹ خاصی محدود ہے۔ اپنی تعلیمی استعداد کو یہاں کی مارکیٹ کے حساب سے اپ ڈیٹ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے اور یہ سب زندگی کی گاڑی کھینچنے کے ساتھ ساتھ کرنا پڑتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ show reality تو اب شروع ہوا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان ہمارے ہاں تو ایک سیاسی نعرہ ہے مگر یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں ۔اس کے علاوہ نئی جگہ نیا ماحول ملازمت کے مسائل ٹھکانے کی تلاش بچوں کی تعلیم و تربیت، اپنے مذہب و کلچر کی بقا اور قومی شناخت ختم ہو جانے کا ڈر وغیرہ وغیرہ انسان کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جو ان تمام چیلنجر سے نبرد آزما ہونے میں سرخرو رہتا ہے وہی کامیاب ٹھہرتا ہے، وگرنہ زندگی تو بری یا بھلی گزر ہی جاتی ہے۔ لوگ وہ خواب جو خود پورے نہیں کر پاتے ان کا گٹّھر اولاد کے کندھوں پہ لاد دیتے ہیں۔ یوں چکّی کا پہیہ مسلسل گھومتا رہتا ہے۔
بات سفینہ سے شروع ہو کر کہاں سے کہاں چلی گئی اور میں کون ہوں یہ تو بتایا ہی نہیں۔
میں سمیر علی اس کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں اکیلا رہتا ہوں۔ پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر ہوں۔ محبت میں ناکامی کے بعد کبھی شادی نہیں کی لیکن سچی بات یہ ہے کہ کبھی کبھی تنہائی کی کاٹ ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ شادی شدہ دوست بیچلر ہونے کے ناطے گھریلو تقاریب میں بلانے سے کتراتے ہیں۔ یہاں فیملی کے ساتھ میل جول کا رواج ہے۔ اب تو میں بھی ا ±ن سے کتراتے لگا ہوں ۔اگر بھولا بھٹکا کہیں چلا بھی جاوں تو گفتگو کی یکسانیت سے بور ہو جاتا ہوں کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے لوگ اپنی بڑائی مارنے سے فرصت ملے تو سیاست پر بات کرتے ہیں یا خاندانی مسائل پہ، فنونِ لطیفہ سے کسی کو کوئی لگاو نہیں۔
مجھے اس بلڈنگ میں آئے صرف ایک سال ہوا ہے۔ میں نے زندگی میں بہت سی عورتیں دیکھی ہیں پر سفینہ جیسی بھرپور عورت کبھی نہیں دیکھی۔ گو وہ مجھ سے عمر میں چند برس بڑی ہو گی پر جب بھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو سوچتا ہی چلا جاتا ہوں اور میرے اندر جیسے جلترنگ سا بجنے لگتا ہے پر اس سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا۔ میری دونوں ماں بیٹے سے اچھی خاصی دوستی ہے۔ کبھی کبھی وہ بلاتے ہیں تو ان کے ہاں چلا جاتا ہوں تین چار گھنٹے کیسے گزر جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہاں دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو ہوتی ہے۔کبھی کبھار ہم تینوں کوئی کنسرٹ یا مووی دیکھنے چلے جاتے ہیں یا کسی اچھے ریسٹورنٹ میں ڈنر پر۔ پوری بلڈنگ میں یہ اعزاز صرف مجھے حاصل ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سفینہ کے کندھوں پہ بظاہر ایسی کوئی گٹھریاں نہیں جن کا وزن اس کے کندھوں کو جھکا دے۔ گو میں متجسس ہرگز نہیں پر انسان جسے پسند کرتا ہے اس کے بارے میں جاننے کی خواہش ایک فطری عمل ہے۔ اِن ہی سوچوں میں گم سم ایک دن میرے قدم خود بخود اس کے گھر کی جانب اٹھ گئے۔ وہ دروازہ کھولتے ہی بولی،
تمہاری ٹائمنگ کمال کی ہے، آ جاو ابھی چائے کا پانی چڑھایا ہے اور اکیلے پینے کا قطعی موڈ نہیں تھا۔ میں آج شہریار کو بہت مِس کر رہی ہوں۔ دو ہفتے ہو گئے اسے گئے۔ آج موسم بہت اچھا ہے بالکنی میں بیٹھ کر چائے پیئیں گے۔
اتنا سجا سجایا اپارٹمنٹ اس بلڈنگ میں شاید ہی کسی اور کا ہو۔ یہاں موجود فرنیچر ، پینٹنگز ڈیکوریشن غرض کہ ہرشئے اس کے اعلٰی ذوق کی عکاس ہے۔ہری بھری بالکنی، خوشگوار موسم، لیونگ روم کے سپیکر پہ دھیمے سروں کی موسیقی اور ہمارے درمیان صرف ایک میز جس پر چائے مختلف لوازمات کے ساتھ نہایت سلیقے سے رکھی ہوئی یعنی کہ پکچر پرفیکٹ۔ ایسا دلکش اور رومینٹِک منظر میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، مجھ پر بے یقینی سی طاری تھی۔
وہ جینز اور گلابی رنگ کے ٹاپ میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ہلکا سا میک اپ اور اس کے پرفیوم کی بھینی بھینی خوشبو میرے ہوش اڑا رہی تھی۔ میں بے خودی کے عالم میں مسلسل اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک چٹکی بجاتے ہوئے بولی،
کس سوچ میں گم ہو؟
میں ہڑبڑا کے بولا، کچھ نہیں اور نیچے دیکھنے لگا جیسے چور رنگے یاتھوں چوری پکڑے جانے پر شرمندگی سے نظریں جھکا لے۔
وہ چائے بنا رہی تھی اور میں اپنی اندرونی کیفیات کے زیر اثر فیصلہ کر چکا تھا کہ جو بھی ہو آج اس کے بارے میں نہ صرف جان کر رہوں گا بلکہ اپنے دل کی بات بھی کہہ ڈالوں گا۔
آپ اوروں سے بہت مختلف ہیں، بہت کچھ کہنے اور پوچھنے کو دِل چاہتا ہے مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ برا نہ مان جائیں؟
الفاظ کا چناو اگر مناسب ہو تو بات بری نہیں لگتی، جواب دینے یا نہ دینے کا فیصلہ بات سن کر ہی کیا جا سکتا ہے، وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی
اس کے انتباہی لہجے نے خود بخود میری حدود کا تعئیّن کر دیا تھا۔ میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا،
مجھے لگتا ہے کہ آپ کی زندگی پر بہت گہری نظر ہے۔ میرے جیسے لوگ زندگی کی تَگ و دو میں مسلسل مصروف رہنے کی وجہ سے بہت سی حقیقتوں اور خوبصورتیوں سے نا آشنا رہتے ہیں۔ آپ میرے لیے ایک دوست کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیا آپ بھی ایسا ہی سمجھتی ہیں ؟
ہاں، میں دوستی پر یقین رکھتی ہوں، اپنے بچوں کے ساتھ بھی دوستوں کی طرح رہتی ہوں مگر دوستی میں بھی احترام ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ وہ خوشدلی سے بولی
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں! میں نے فوراً سوال داغ دِیا،
آپ کا طرز زندگی بتاتا ہے کہ آپ بہت اچھی زندگی گزار چکی ہیں، لگتا نہیں کہ آپ کا کوئی ایسا خواب ہو جو پورا نہ ہوا ہو۔
اس کا جواب میرے لیئے بہت حیران کن تھا۔
اچھی زندگی! مالی آسودگی کے لحاظ سے تم درست سمجھے۔ میرا تعلق ایک اپر کلاس روائتی گھرانے سے ہے۔ جہاں عورتوں کو تعلیم اور مادّی آسائشوں سے تو محروم نہیں رکھا جاتا مگر انہیں خواب دیکھنے کی اجازت نہیں۔ جو زندگی انہیں ملتی ہے دیگر طبقات کی خواتین کی طرح چپ چاپ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنا پڑتا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے ؟ آپ نے تو یقیناً مزاحمت کی ہوگی۔
نہیں وہاں کوئی مزاحمت نہیں کر سکتا کہ مزاحمت کے نتائج بہت ہولناک ہوتے ہیں۔ خاندان اور برادری سسٹم میں الجھا معاشرہ مزاحمتی رویئے کو قبول نہیں کرتا۔ اور جب کوئی ساتھ دینے والا نہ ہو تو انسان اکیلا کہاں تک لڑ سکتا ہے!
مزاحمت تو انسان کو زندہ رکھتی ہے، خواب تو جینے کا مقصد دیتے ہیں، آپ کو اس طرز زندگی سے کوئی فرسٹریشن نہیں ہوئی؟ میری سوئی وہیں پہ اٹکی ہوئی تھی۔
آگہی سے آشنا دنیا کے ہر فرد کو فرسٹریشن ہوتی ہے۔ اس میں مرد اور عورت کی تخصیص نہیں۔ زندگی آپ کی پلیٹ میں جو کچھ ڈالتی ہے ضروری تو نہیں وہ ویسا ہی ہو جیسا کہ آپ چاہتے ہیں، زندہ رہنے کے لیے کھانا تو پڑتا ہے مگر اس مینیو میں چوائس نہیں ہوتی۔ قدم قدم پر رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے ہوں، انسان جو کرنا چاہے وہ نہ کر پائے، پسند یا منشا جیسے الفاظ کوئی معنی نہ رکھتے ہوں تو فرسٹریشن کِسے نہیں ہوتی؟
اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا، میں چپ رہا کیوں کہ یہ زندگی کی وہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں، پھر کچھ سوچ کر کہا کہ کبھی بغاوت کی سوچ آئی؟
وہ خلاوں میں گھورتے ہوئے بولی بغاوت تو نہیں مگر حتی الاِمکان روایات سے ٹکرانے کی کوشش کی مگر صدیوں پرانی روایات اِکا دکا افراد کی کوشش سے نہیں بدلتیں۔ اس کے لیے تو معاشرے کو بحیثیت مجموعی کوشش کرنی پڑتی ہے اور ہمارا معاشرہ تو ابھی شعور کی پہلی منزل پر بھی نہیں ہے۔ اِسے بدلنے میں ایک آدھ صدی تو لگے گی۔ اپنی کزن کا حشر دیکھنے کے بعد زیادہ مزاحمت میرے بس میں نہیں تھی کیونکہ آگے کا راستہ موت کا تھا اور مجھے جینا تھا۔ فرار کا کوئی راستہ نہ ہو تو مجبوراً سمجھوتے کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے۔
سمجھوتا بھی تو ایک طرح کی موت ہوتا ہے، آپ نے یہ کیسے قبول کر لیا؟
قبول کرنا پڑتا ہے، زندگی ہر قدم پر ایک نیا سبق دیتی ہے۔ کھلی جنگ لڑنے کی سکت نہ ہو تو گوریلہ جنگ لڑنی پڑتی ہے اور زندگی کی مار کھانے کی طاقت نہ ہو تو سمجھوتا کرنا پڑتا ہے، حالات ہر ذی شعور کو اِتنی سمجھ بوجھ ضرور دے دیتے ہیں کہ بڑے مقصد کی خاطر وقتی طور پر سمجھوتا کر لیا جائے۔
تو آپ یہاں تک کیسے پہنچیں؟
میرے اِس سوال نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی، اس کِھلے ہوئے چہرے سے نظر ہٹانا کتنا مشکل تھا، اِس کا احساس مجھے پہلی بار ہوا۔
اِس زندگی کا خواب میں نے نہیں دیکھا تھا کب اور کیسے قدرت نے یہ سارے فیصلے کئے مجھے پتہ ہی نہ چلا اور میں وقت کے دھارے کے ساتھ بہتی بہتی یہاں تک آ پہنچی۔
میں کہاں ہار ماننے والا تھا جلدی سے ایک اور سوال داغ دیا،
اب پیچھے مڑ کر زندگی کو دیکھنا کیسا لگتا ہے؟
پیچھے مڑ کر دیکھنا میری عادت نہیں۔ ایک بھیانک خواب دیکھنا کسے پسند ہوتا ہے؟ اس نے جوابی سوال کیا۔
میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کر کے پوچھا اور آپ کے شوہر؟
دس سال پہلے شوہر کا انتقال ہو گیا۔
مگر آپ تو یہاں سولہ سال سے ہیں؟
ہم الگ رہتے تھے اسے یہاں رہنا پسند نہیں تھا اس کی ساری دلچسپیاں اور طاقت کا محور وہاں تھا اور میری یہاں کہ میں اپنے بچوں کو روایات کے اس جہنم سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ دونوں بچوں نے یہیں سے پڑھا ہے۔ بیٹی کی شادی اپنے کلاس فیلو سے ہو چکی ہے جو یونیورسٹی میں اس کے ساتھ پڑھتا تھا۔ وہ بہت خوش ہے۔ بیٹا شادی کی ذمہ داریوں سے گھبراتا ہے۔ جاب کے سلسلے میں اکثر باہر رہتا ہے۔ میں نے یہ اپارٹمنٹ اِس لیے خریدا ہے تاکہ اس کی غیر موجودگی میں آرام سے اکیلی رہ سکوں۔ میں زندگی کی جنگ جیت چکی ہوں بس اتنا ہی کافی ہے۔
اس کے چہرے کا تناو ختم ہو چکا تھا۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگی کچھ کھاو گے بھی یا سوال ہی کرتے رہو گے، تمہاری چائے ٹھنڈی ہو چکی ہے ٹھہرو میں دوسرا کپ لاتی ہوں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اس کے گالوں کے کھلتے گلاب میرے دل میں ہلچل مچا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش یہ وقت یہیں ٹھہر جائے
میں نے اپنے سحر زدہ حواس کو مجتمع کرتے ہوئے پوچھا، کیا آپ کو رویئے پریشان نہیں کرتے؟ میں مرد ہو کر بھی لوگوں کی منافقت بھری ذہنیت سے گھبراتا ہوں اور آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے دانستہ جملہ نامکمل چھوڑ دیا۔ یہ ایک باو نسر تھا جو میں نے اس کی جانب پھینکا تھا۔
میں جانتی ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو، جب کوئی تصویر کسی مروجہ فریم میں فِٹ نہیں بیٹھتی ہے تو لوگ ہمیشہ اس کے بارے میں متجسس رہتے ہیں یا متشکک ۔پر مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ لوگ کیا کہیں گے کی کہانی میرے لیے پرانی ہو چکی ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
اچھا اب تم یہ بتاو کہ زندگی میں کون لوگ اہم ہوتے ہیں ؟ میں اس اچانک سوال سے کچھ گڑبڑا تے ہوئے جلدی سے بولا،
یقیناً دہ، جو ہماری زندگی سے جڑے ہیں یا جنہیں ہم اہمیت دیتے ہیں۔
ہنستے ہوئے بولی، خاصے سمجھدار ہو، ہمارا معاشرہ عورت کو ایک مخصوص نکتہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بولڈ اور ذہین عورت کو بہت کم لوگ ہضم کر پاتے ہیں! میرے لیے یہ سب اجنبی ہیں، میرا اپنا مزاج ہے اور اس پر کمپرومائز کرنا میری عادت نہیں۔ مجھے کسی سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں جوڑنا تو پریشانی کیسی؟
وہ اِس باونسر کو بھی کمال مہارت اور پر اعتماد انداز سے کھیل گئی، زندگی کے تھپیڑے اسے بہت مضبوط بنا چکے ہیں۔ اب کی بار میں نے گ ±گلی کرانے کا فیصلہ کیا
خواہشات تو زندگی کا دوسرا نام ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی انسان کی کوئی خواہش، کوئی آرزو، کوئی تمنا ہی نہ ہو؟ میں خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا، وہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے بولی۔
اِس میں حیرانی کیسی؟ تمام عمر انسان خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے، مجھے اور نہیں بھاگنا۔ ایک کھلی اور آزاد فضا میں سانس لینے کا جو مزا ہے اسے بہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ میں اس کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں۔
مکالمے کا میچ وہ جیت چکی تھی پر ابھی میرے دِل کی بات تو باقی تھی! میں جانتا تھا کہ ایک اوور میں ایک ہی باونسر پھینکا جا سکتا ہے پر خود کو روک نہ پایا۔ پہلی بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا،
مستقبل کے بارے میں کوئی سوچ کوئی خواب تو ضرور ہو گا؟
جواباً وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تلخ لہجے میں بولی،
خواب بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں، میرا خواب دیکھنے کا وقت گزر چکا ہے۔
اس کے تلخ لہجے کو نظر کرتے ہوئے میں نے گفتگو کو جاری رکھا۔
تلخ تجربات انسان کے اندر جینے کی امنگ ختم کر دیتے ہیں۔ شاید آپ نے اپنے ارد گرد ایک حصار باندھ لیا ہے اور دروازے پر entry no کا بورڈ لگا دیاہے۔ تنہا زندگی گزارنا مشکل ہے کبھی باہر نکل کر دیکھیں ہو سکتا ہے کہ نئی زندگی آپ کا انتظار کر رہی ہو!
اس نے کوئی جواب نہیں دیا خاموشی سے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور دھیرے دھیرے کش لینے لگی۔ اس کے چہرے سے اندرونی کیفیت کا ندازہ لگانا ناممکن تھا۔ میں بے چینی سے اس کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا چند لمحے بعد اس نے گہری نظروں سے میری جانب دیکھا اور گھمبیر سے لہجے میں صرف اتنا کہا،
“چائے پیو ٹھنڈی ہو رہی ہے”۔
اس کے بعد کی مسلسل خاموشی اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ مزید گفتگو ممکِن نہیں۔
میں چائے کے گھونٹ حلق سے نیچے اتارتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے نپے تلے انداز میں بہت کچھ کہہ گئی، مزید کچھ بھی کہنے سننے کی گنجائش باقی نہیں۔ وہ کِن طوفانوں سے نبرد آزما رہی، کوئی نہیں جانتا ۔پر آنکھیں ایسا آئنہ ہیں جو ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ انسانی نفسیات کی گتھیوں کو سلجھانا کوئی آسان کام نہیں ہے، عمر گزر جاتی ہے الجھی ڈوروں کو سلجھاتے۔ انسان جو کچھ بھولنے کی کوشش کرتا ہے اسے کبھی نہیں بھلا پاتا۔ یہ اور بات کہ وقت درد کی شدّت میں کمی ضرور لے آتا ہے۔ کربِ ذات کے اظہار کے بہت سے طریقے ہیں شاید اس کا روئیہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے جو اسے اوروں سے منفرد بناتا ہے۔
فضا بوجھل ہو چکی تھی۔ اس کی خاموشی ناقابلِ برداشت تھی۔ چائے کا ذائقہ تلخ ہو چکا تھا۔
ا س کے لہجے کی کاٹ نے بتا دیا کہ ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے، میں آفس کے کام کا بہانہ کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔
گھر پہنچ کر میں نے مایوسی کے عالم میں اپنے آپ سے سوال کیا، سمیر علی اب کیا ارادے ہیں؟ جسے تم امکان سمجھ رہے تھے کہیں تمہارا گمان تو نہیں تھا؟ وہ تو تمہاری بات سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتی۔ میں جانتا ہوں کہ زندگی امکان اور گمان کے درمیان ہی گھومتی رہتی ہے پر جب معاملہ قسمت کے ہاتھ ہو تو زیادہ سوچنا بے کار ہے۔ میری توجہ اب بھی امکان پر ہے۔ فی الحال تو زندگی ایک مثلث کی طرح ہے جس کے ایک کونے پر وہ ،دوسرے پر میں اور تیسرے پر وقت ہے اور یہ ظالم وقت کسی کے تابع نہیں صرف اپنی کرتا ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*