سیاھڑ شکاری

سیاھڑ شکاری کے پرنواسہ زبیر مری سے روایت ہے کہ سیاھڑ شکاری مستیں توکلی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا۔ وہ اکثر مست کے ساتھ ہوتا تھا ۔
سیاھڑ شکاری کا اصل نام امیرھان تھا ۔ کیونکہ اس کے جسم میں بڑے گھنے کالے بال ہوا کرتے تھے اس لیے مست اور لوگ انھیں سیاھڑ کہا کرتے تھے ۔ وہ بعد میں شکاری بنا تو سیا ھڑ شکاری کے نام سے مشہور ہوا۔
ایک دفعہ مست توکلی اور سیا ھڑ شکاری ایک پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے ۔دیکھتے دیکھتے مست جلالی میں آگیا ۔ اس نے سیاھڑ شکاری سے کہا کہ آج جو مانگنا ہے مانگ ۔لیکن سیا ھڑ شکاری نے کچھ نہیں مانگا۔ بہرحال تین دفعہ مست نے یہی کہا اور سیاھڑ شکاری نے کچھ نہیں مانگا ۔پھر مست خود بولا کہ تمہیں ناڑی(نڑ بجانے والا موسیقار) بناد یا۔تو سیا ھڑ شکاری نے کہا کہ نہیں ، مجھے شکاری بناﺅ اور مست نے کہا ” تہ پہ دیما وشکی پہ تئی رندا“ جاﺅ آج سے تم شکاری بن گئے ہو تمہارا نشانہ کبھی رد نہیں ہوگا۔ لیکن جب بھی شکار کرو تو سارے جانور نہیں مارنا ایک چھوڑنا ہے ۔کسی بھی جانور یا پرند کا اتنا شکار نہیں کرو کہ اس کی نسل ختم ہو ۔ہر جوڑے میں ایک کو چھوڑنا“۔
پھر سیاھڑ شکاری نے کہا کہ بھیڑیے میرے مویشیوں کو نہیں چھوڑتے تو آج سے بھیڑیے کا مسئلہ حل ہوا اب شکاری بن گیا ہوں۔ جواب میں مست نے کہا ”گرک دف بندیں“آج سے بھیڑیے کا منہ بند ہے ۔تمہارے مویشیوں کو نہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اگر بھیڑے خود سامنے آگئے تو انہیں مارو تمہارے ہاتھ کھلے ہیں۔
اُسی دن سے سیا ھڑ شکاری بن گیا اور اس کا نشانہ کبھی نہیں چھوٹا۔
روایت ہے کہ اُس وقت کے سردار مہراللہ مری نے سارے نامور شکاریوں کو بلایا اور کہا کہ نشانہ لگانا ہے ۔تم میں سے جو سب سے اچھا شکاری ہے وہ سامنے آجائے۔ بڑے بڑے شکاری کہنے لگے پہلے سیا ھڑ شکاری نشانہ لگائے پھر ہم لگائےں گے ۔کیونکہ ہم نے اس کا نام بہت سنا ہے ۔۔۔ سردار کے کہنے پر سیاھڑ شکاری سامنے آیا۔ اور سردار نے ایک ڈھال اوپر پھینکا اور سیاھڑ شکاری سے کہا اب مارو نشانہ۔ سیاھڑ شکاری نے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلائیں۔ ہر وار نشانے پر جا لگا۔ اس وقت پرانے زمانے کی بندوق ڈھاڈری ہوتی تھی ۔ پانچویں گولی لگنے کے بعد دوسرے شکاریوں نے جواب دیا کہ ہم ہار گئے۔ اتنے کم وقت میں اتنا بہترین نشانہ نہیں لگا سکتے کیونکہ ڈھاڈری بندوق میں بارود بھرنا اور پھر فائر کرنا اتنی جلدی نہیں ہوگا ہم سے۔ اصل میں مست کی دعا ساتھ تھی۔ تب سیاھڑ شکاری کو سردار نے اُس وقت ایک دستار سے نوازا۔ یاد رہے بلوچی روایات میں دستار کو بے پناہ عزت و احترام سمجھا جاتا ہے۔
ایک دفعہ مست اور سیا ھڑ شکاری کہیں جا رہے تھے ۔دو اور سنگت ساتھ تھے ۔مست اپنی محبوبہ سمو کے عشق میں گڑ بڑا گیا اور اچانک بھاگنے لگا ۔یہ تینوں بھی ساتھ بھاگنے لگے۔ دو دوست تھک کر بیٹھ گئے ۔سیا ھڑ شکاری پیچھے بھاگتے ہوئے جارہا تھا۔کہیں جا کر مست رکا اور سیا ھڑ شکاری کے آنے کے بعد پوچھا باقی دو دوست کہاں ۔ اس نے کہا وہ تھک کر بیٹھ گئے ہیں اور پیچھے رہ گئے ۔مست نے کہا جاﺅ انھیں ساتھ لاﺅ۔۔۔ سیاھڑ شکاری واپس جا کر انہیں اپنے ساتھ لے کر آگیا اور تھوڑا بیٹھے ۔پھر بھوک لگنے لگی۔ مست سے کہا کہ بہت بھوک لگی ہے ۔مست نے کہا تم لوگ بیٹھ جاﺅ میں سمو کے گھر سے کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔ حالانکہ وہاں قرب وجواز میں سمو کا گھر نہیں تھا ۔ایک ویران پہاڑی علاقہ تھا ۔تھوڑی دیر بعد مست گرم روٹیاں لے کر آگیا۔ ان تینوں نے کھائیں۔لیکن مست نے نہیںکھایا اور آگے روانہ ہوگیا۔ کہتے ہیں وہ روٹیاں گندم کی روٹی لگ رہی تھیں لیکن ذائقہ گندم کا نہیں تھا واللہ علم کہ کیا تھا۔ پھر پیاس لگی تو پانی کے لئے مست نے کہا جاﺅ اس پہاڑی کے پیچھے سمو کا اوٹغ(تالاب ) ہے پانی پی کر آجاﺅ ۔جب یہ تینوں وہاں گئے تو نیا نیا چشمہ ابھر آرہا تھا ۔پانی پی کر تینوں سیرآب ہو کر آگئے۔
شام ہوگئی تو پھر تینوں نے کہا مست ہمیں بھوک لگنے لگی ۔تنے میں ایک دمبہ اُن کے پاس آکر رک گیا۔ مست نے کہا”سمو میہڑئے گرانڈے“ (یہ سمو کی ریوڑ کا دمبہ ہے) اسے پکڑ کر ذبح کرو،اسی نے بھیجاہے۔ پھر اُسی دمبے کو ذبح کر کے کھا لیا۔
ایک دفعہ سیا ھڑ شکاری مست کے ساتھ جا رہا تھاساتھ ایک اور دوست بھی تھا ۔وہ شکاری تھے۔ سردیوں کا موسم تھا ۔تینوں ایک پہاڑی سلسلے میں میں دور کہیں نکل آئے۔ ویرانے میں دونوں شکاریوں کے ساتھ ڈھاڈری بندوقیں تھیں عصر کا وقت ہوا ۔کہیں جا کر رکے وہاں دونوں شکاریوں نے کہا ہم جا کر شکار کر کے کچھ لاتے ہیں آپ تب تک آرام کرو یہاں ۔مست نے کہا ٹھیک ہے۔ دونوں شکاری گئے کافی دیر لگائی کچھ نہیں ملا شکار کرنے کو تو واپس آرہے تھے تو انہیں دور سے درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا ۔آگے آکر دیکھا تو چیونٹیوں کے غار پہ ایک بہت بڑا اژدھابیٹھا ہوا تھا۔ سیا ھڑ شکاری نے کہا چلو مست کو بتاتے ہیں لیکن اسکا دوسرا شکاری دوست نہیں مانا اور کہا اس کو مار دیں گے ۔اس نے مارنا چاہا سانپ کو لیکن بندوق سے فائر نہیں ہوا۔ دوسری بار پھر کوشش کی فائر نہیں ہوا ۔اور سیا ھڑ شکاری نے جذبات میں آکر کر اس اژدھا کو اپنی بندوق سے فائر کر کے مار دیا اور سانپ دو ٹکڑے ہوگیا اور یہ دونوں روانہ ہوگئے ۔مست کے پاس جب آئے تو مست بہت غصے میں تھا۔ دونوں شکاری سمجھ گئے کہ کوئی کام خراب کیا ہوگا ۔ مست کو کچھ نہیں بتایا نا مست سے بات کی ۔ رات ہوگئی تھی سو گئے۔
صبح سویرے مست نے پوچھا کہ کل جس سانپ کا شکار تم نے کیا تھا چلو دکھاﺅ مجھے ۔سیا ھڑ شکاری حیران ہوا کہ بتایا بھی نہیں اُسے کیسے پتہ چلا ۔اب بات بدل بھی نہیں سکتے تھے اور لے گئے مست کو اسی اژدھا کے پاس اور دیکھا اس سانپ کا سر نہیں تھا باقی دو ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ مست نے کہا بہت افسوس ہوا اگر تم اس سانپ کو نہیں مارتے تو یہ تمھاری سات نسلوں کے لئے کافی تھا ۔سیا ھڑ شکاری نے پوچھا کیسے مست نے کہا اب چھوڑو تم ہار گئے اسے ۔اور روانہ ہوگئے۔۔۔۔
روایت ہے کہ کوہ گڈبر جو سیاھڑ شکاری کی پیدائش کی جگہ ہے وہاں ایک چشمہ تھا۔ اسی پہاڑ میں چشمے کے پاس ایک بڑا کالا سانپ تھا جو ہمیشہ عوتوں کو نظر آتا تھا۔ جب مرد جاتے تو وہ سانپ نہیں نکلتا تھا ۔ایک دن کچھ عورتیں وہاں پانی بھر رہی تھیں کہ اچانک وہ سانپ باہر آگیا ۔عورتیں اپنے برتن وہیں پھینک کرچیختی ہوئی آگئیں۔اس دن سیا ھڑ شکاری بیمار تھا ۔عورتوں کی بات سن کر قصبے کے سارے مرد نکل کر گئے سانپ کو مارنے کسی کے پاس کھلاڑی تھا تو کسی کے پاس چھڑی۔۔۔۔
جب وہاں گئے تو دیکھا سانپ بڑا ہے نقصان دیگا ۔مار نہیں سکتے ۔سیاھڑ شکاری کو ساتھ لائے۔ سیا ھڑ شکاری کو دیکھ کر سانپ بھاگنے لگا اور اپنی بل میں گھس گیا اس کی دم باہرتھی ۔سیاھڑ شکاری نے دم پکڑا اور باہر کھینچ لانا سیاھڑ شکاری نے چاقو سے اس سانپ کا سر کاٹ لیا۔سانپ مر گیا ۔وہ سانپ کو اپنے ساتھ گھر لایا اور اپنی بیوی سے کہا برتن لاﺅ میں اسے پکاکر کھاﺅں گا۔ اس کی بیوی نے کہاتم پاگل ہو ایک ہی دیگچی ہے اس کو مردار کرنے نہیں دوں گی۔ پھر سیا ھڑ شکاری ایک مٹی کے برتن میں اس سانپ کو کاٹ کاٹ کر پکانے لگا ۔اور برتن ٹوٹ گیا ۔پھر زبردستی اپنے گھر کی دیگچی کو لا کر اسی میں پکایا۔ اس کی بیوی برا بھلا کہتی رہی ۔لیکن اس نے اس سانپ کو پکاکر کھا لیا ۔ سب دیکھ رہے تھے ۔ اس نے کہا تم لوگ کبھی سانپ مار کر نہیں کھانا مجھے مست کی دعا ہے اور یہ سانپ نہیں ہے تم لوگوں کی سمجھ سے باہر کی باتیں ہیں۔۔۔۔ سب حیرانگی سے دیکھتے رہ گئے۔ پھر اس کے بعد سیا ھڑ شکاری نے اپنی بیوی سے کہا مجھے نہیں جگانا جب تک میں خودنہ جاگوں ۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ تین دن اور تین رات تک سیاھڑ شکاری سوتا رہا۔ پھر جب جاگ گیا تو اسی پہاڑ میں جا کر پانج دمبے شکار کر کے لایا اور بستی میں خیرات کر کے سب کو کھلایا۔۔۔
روایت ہے کی ایک دفعہ سیا ھڑ شکاری ایک پہاڑی دمبے کا شکار کرنا چاہتا تھا لیکن دیکھا پہلے سے ایک چیتا اس دمبے کو شکار کرنے کے لئے موجود تھا تو سیا ھڑ شکاری نے کے اس کا شکار نہیں کیا ۔چیتا نے چھلانگ ماری مگر دمبہ بچ کر بھاگ گیا ۔پھر کچھ دیر تک وہ چیتا وہاں ایڑیا ںرگڑتا رہا اور پہلے والی جگہ سے چھلانگ لگادی جہاں دمبہ تھا تو آگے جا کر کھائی میں گرا ۔یہ واقعہ سیاھڑ شکاری نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن خود دمبے کا شکار نہیں کیا کیونکہ شکاری کسی دوسرے شکاری کا حق نہیں مارتے۔۔۔۔
سیا ھڑ شکاری کا ایک دوست حج سے واپسی پر اُس کےلئے کفن لایا تھا ۔ اسے بعد میں اسی کفن میں دفن کیا گیا۔ سیوی سے اپنے گاوں گڑانگ جاتے ہوئے راستے میں نمونیہ کی بیماری سے اس کا انتقال ہوا اور وہ گڑانگ میں دفن ہے جو ہرنائی سے دو گھنٹے سفر کی دوری پر واقعہ ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*