جنگِ گوخ پروش

گوخ پروش تربت کے شمال کی طرف 30کلومیٹر کے فاصلے پر ایک درہ (pass) ہے۔
بلوچستان کے علاقہ مکران میں1898 میں بلوچ خان نوشیروانی اور محراب خان گچکی ،(سردار کیچ) کی قیادت میںانگریزوں کے خلاف ایک عمومی بغاوت ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خان ِکلات کا حکم و اقتدار پہلے کی طرح مضبوط نہ تھا۔ ہماری طرف کے مکران اور ایران کی سرحدوں میں واقع بلوچ قوم انگریزوں کے مکروفریب میں کا شکار ہو چکی تھی۔ ایرانیوں اور بلوچوں کے درمیان جھگڑوں میں انگریز غیر جانبدار نہ تھا۔ بلوچ آہستہ آہستہ اپنے خلاف انگریز کی ریشہ دوانیاں سمجھنے لگے تھے۔ انگریزاُس وقت تک بلوچستان کی بڑی بندرگاہوں گوادر، پسنی ، جیونی اور اورماڑہ پر قبضہ کر چکا تھا اور اس نے اپنا نمائندہ کیچ میں بھی مقرر کیا تھا۔
خان ِ کلات ھذا داث کی چُھٹی کے بعدبرائے نام خان کلات محمود خان نے اوڈھو داس کو یہاں کا ناظم مقرر کیا ۔ یہ ناظم ٹیکس لگانے کا بڑا شوقین نکلا۔ اس نے کھجور کا دسواں حصہ بطور ٹیکس لینا شروع کیا۔ پہلے سے بدحال خلقت مزید فاقوں کا شکار ہونے لگی۔
اس سے قبل 1884 میں مند کے رندوں اورخانِ کلات کے درمیان بڑی لڑائی ہوئی۔خان کلات کا اصرار تھا کہ وہ لوگ میر جوہر کو مالیہ دیں ۔اوریہ کہ حکومت مند میں اپنا ایک نمائندہ بٹھائے گی ۔ انگریزوں نے ان اختلافات سے فائدہ اٹھایا۔ سنڈیمن کو مکران بھیج دیا گیا جس نے ان اختلافات کو مزید بھڑکادیا۔
تب میر بلوچ خان نے تلوار اٹھالی اور 1898 میں انگریز کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔ اس نے سب سے پہلے تربت کے قلعے پر حملہ کردیا۔انگریز کے گماشتوں کو گرفتار کرکے سزا دی۔ کلا تک کے پہاڑوں میں بورن نامی انگریز کپتان کے اوپر حملہ کردیا، کچھ کو قتل کیا، کچھ کو گرفتار۔کیچ میں خان کے مقرر کردہ ناظم دیوان اوڈھوداس کو گرفتار کرلیا گیا اور تربت کا قلعہ قبضہ کیا گیا۔ کچھ لوگ سمندر کی طرف گئے اور پسنی کو لوٹ لیا اور پسنی اور گوادر کے درمیان ٹیلیگراف لائن کاٍ بڑا حصہ تباہ کردیا۔
انگریزوں نے اس بغاوت کو کچلنے کے لےے کرنل مین(Mein) کو 400 جہازی فوجی اور دوتوپیں دے کر کراچی سے روانہ کردیا۔کرنل مین کی روانگی سے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ ناکس پہنچ چکا تھا اور مزید فوج 27جنوری1898 کو پسنی پہنچنے والی تھی۔ ان کے پہنچتے ہی انگریز دستے کیچ کی طرف بڑھے۔ راستے میں کوئی مزاحمت نہیں ملی ۔بلوچوں نے ایک ہزار کی تعداد میں وطن دوست اکھٹے کیے ۔ تمپ سے مراد اور شگر اللہ گچکی، مند سے حیاتان رند، بلیدہ سے محراب خان نوشیروانی اور مہیم خان نوشیروانی ، کلا نچ سے مبارک اور مراد واڈیلہ اپنے دستوں کے ساتھ بلوچ آرمی میں آن موجود ہوئے ۔
بلوچوںنے فیصلہ کیا کہ فرنگی کے تربت پہنچنے سے پہلے اُس کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے جائیں۔ چنانچہ بلوچ خان نے گوخ پروش کے پہاڑوں میں مورچے سنبھال لیے۔
انگریزوں نے پہلے تو جنگ سے گریز کرنے کی کوشش کی اور اِدھر اُدھر کی لالچیں دے کر بلوچوں سے معاہدہ کرنے کی کوشش کی ۔ مگر بلوچ نہ مانے۔
تب انگریز آگے بڑھنے لگا۔ کہیں کہیں لڑائی ہوئی۔ دلچسپ بات ہے کہ کچھ بلوچوں نے شب خون کی تجویز دی مگر کمانڈر بلوچ خان نے چُھپ کو لڑنے سے انکار کیا کہ لوگ طعنے ماریں گے۔
30جنوری1898 کوتربت سے جنوب میں پندرہ میل کے فاصلے پرگوخ پروشسلسلہِ کوہ کے مقام پرانگریز سے لڑائی ہوئی۔ انگریز حملہ آور افواج کی سربراہی ناکس اور میجر جیکب کررہے تھے۔ جبکہ بلوچ سپاہِ آزادی میر بلوچ خان نوشیروانڑیں اور میر محراب خان گچکی کی قیادت میں وطن کافاع کررہی تھی۔ بلوچ بہت بہادری سے لڑے۔ مگر اُن کے پاس محض تلواریں تھیں اور لاٹھیاں تھیں۔ جبکہ انگریز کی فوج تربیت یافتہ فوج تھی ۔ جنگی داﺅ پیچ میں یکتاتھی ۔ اُسے کسی طعنہ وغیرہ کا سامنا نہ تھا۔ اُس نے تو کسی نہ کسی طرح جنگ جیتنا تھی۔ توپوں کی نعمت انہیں حاصل تھی ۔ جبکہ بلوچوں نے کسی طرح کی جنگی داﺅ پیچ اپنانے کو بزدلی قرار دے کر مسترد کردیا اور آمنے سامنے کی روایتی جنگ کا فیصلہ کیا۔ شریف لوگوں نے اپنی فوج کو ٹکڑوں میں بھی نہیں بانٹا تا کہ جمگھٹے میں توپ کے نقصان سے بچا جاسکے۔ یوں ہمیں دشمن کے توپ خانے نے بھون ڈالا۔میربلوچ خان نوشیروانڑیں‘ میر رستم خان ،محراب خان نوشیروانڑیں، میرشکر اللہ خان گچکی(تمپ) ،میرحیاتاں رند (وکائی) گل محمد نوشیروانڑیں(بلیدہ) ،150 وطن کے دوسرے جاں نثار وں کے ساتھ شہید ہوگئے۔انگریز کے چار سپاہی مارے گئے اور بارہ زخمی ہوگئے(1)۔
سردار محراب خان گچکی (کیچ ) جنگ کے میدان سے پسپا ہوکر پرشت سے تربت قلعہ پہنچا اور انگریزوں نے اس کا تعاقب چربک قلعہ تک کیا مگر وہ ایران فرار ہوگیا(2)۔
یہ بلا شبہ ایک بہت بڑی جنگ تھی مگربلوچوں کو من حیث القوم اِس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ میرا خیال ہے کہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کا آفشل شاعر (ملک دینار) جاندار شاعری نہ کر سکاتھا۔ اس لےے یہ جنگ بلوچ دلوں میں اچھی طرح رپورٹ نہ ہو سکی ۔ یہ جنگ دراصل بلوچ ساحلوں پر انگریزی فوج اتارنے اور کے خلاف بلوچ مزاحمت کی جنگ تھی ۔
ہمارے قومی قرض ادا کرنے والے شاعر ، ہمارے فخر و شناخت میر گل خان نے دو طویل شیئر ” گوخ پروش “جنگ کے متعلق لکھے۔ بس ایک کا آخری ” ٹوٹا“ ہی دے پاﺅں گا:
مرتنت مزں نامیں کہار
میریں بلوچ خان و سغار
نوشیروانی نر مزار
میریں مہم خان جلوہ دار
روستم گوں محراب خان اوار
گل محمد ئت وث پیدوار
کپتغنت پڑا مرد سر مچار
کرتنت جہانا سوگوار
گچکی مزن نام و توار
شیر محمد خان بوت بے مئیار
شکر اللہ زحمانی ککار
و پتگ پڑا، تو پئے دپار
رندئے حیاتاں شاسوار
وشنام بیتگ بے مئیار

حوالہ جات

-1بلوچ ،حکیم۔ بلوچ قومیت ۔ خانیت و سرداریت ۔2007۔ گوشہ ادب کوئٹہ ۔صفحہ63
-2 گزیٹیئر آف بلوچستان ، مکران ، دوسرا ایڈیشن ، 1986 گوشہ ادب کوئٹہ ، صفحہ نمبر 55۔ اور ۔Frontier and Overseas Expedition From India ۔بک ٹریڈرز لاہور ، صفحہ 250

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*