عابدہ رحمان

خوشبو ، رنگ بارش اور شاعری انسانی وجود پر بے حد اثر کرتے ہیں ۔خاص کر شاعری ایسی شے ہے جیسے کسی جھرنے سے بہتا پانی کسی پیاسے کو پاس بلاتا ہو اور ہم۔جیسے اہلِ زوق بالکل جہاں دیدارمن وہاں مستم ۔کچھ عرصہ پہلے کراچی آرٹس کونسل میں مری صاحب سے ملاقات پھر ملنے کا بہانا ٹھہری ۔ ہمارے رہنما نذیر لغاری صاحب کے گھر ان کے ساتھ سرائیکی عوامی تریمت تحریک کی ایک نشست رکھی گئی ۔اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے عابدہ رحمان کا بہت محبت کے ساتھ ذکر کیا ۔ان کی باقی خصوصیات کے علاوہ ان کی شاعری کی بھی بہت تعریف کی اور جس کی تعریف ولی کرتا ہو اس کی جستجو یوں ہو جاتی ہے کہ جیسے۔۔
لازم ہے کہ ہم۔بھی دیکھیں گے
یوں ہم نے بھی مری صاحب سے ان کا نمبر ہدیتاًلے لیا اور یوں ان سے شناسائی ہوئی
بہت خوبصورت لب و لہجہ کمال کی رائیٹر ادب کی دنیا میں اپنا آپ منوانے کے گر جانتی ہے ۔
خواتین کی ایک تنظیم دزگہار کی بہت قابل رکن ہیں ۔ آئیے جانتے اس ماہ رو عابدہ رحمآن سے ان کے بارے میں
1۔ اپنا خاندانی پس منظر بتائیں؟
میرا نام عابدہ رحمان ہے اور میں پختون ہوں۔ ویسے تو میرا تعلق مردان سے ہے لیکن میں کوئٹہ کی ہوں اور خود کو بلوچستانی کہلوانے میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ کوئٹہ میں 23 مارچ 1977 کو پیدا ہوئی۔ اور پوری تعلیم اور جاب کوئٹہ ہی کی ہے۔
2۔ تعلیمی پس منظر؟
سیکرڈ ہارٹ گرلز ہائی سکول سے میں نے 1993 میں میٹرک کیا۔1996 میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کوئٹہ سے FSc کی۔ اس کے بعد 2001 میں بلوچستان اگریکلچر کالج بلیلی کوئٹہ سے ایگریکلچر میں BSc (hons) کیا۔ 2014 میں پرایﺅیٹ MA پشتو کیا۔اور اب Entomology میں Msc (hons) کر رہی ہوں۔۔
3۔ ادبی پس منظر۔ ادب کی طرف رحجان کیسے پیدا ہوا؟۔
کتاب سے محبت ہمیں ہمارے والد نے سکھائی۔ شروع ہی سے گھر میں جنگ اور ڈان اخبار آتے تھے اور مختلف کتابیں وہ خود ہمارے لیے لایا کرتے تھے ۔اس لیے کتاب پڑھنے کی عادت ہم سب بہن بھائیوں میں ہے۔ ہاں شوق کے اعتبار سے سب اپنی اپنی پسند کے موضوعات پر کتابیں پڑھتے ہیں۔
لکھنے کے لیے یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ آپ حساس ہوں، آپ چیزوں کو، ارد گرد کے لوگوں کے دکھوں کو، عام انسان سے مختلف اندازمیں محسوس کرتے ہوں۔ میرا معاملہ یہ تھا کہ کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ہے۔ بے تحاشا پڑھتی تھی، طبیعت میں حساسیت بھی تھی، جس نے مجھے لکھنے کی طرف مائل کیا۔
اب تک میری 6 کتابیں آ چکی ہیں۔۔
اب تک کے میرے تقریبا تمام افسانے ماہنامہ سنگت میں شائع ہو چکے ہیں اور ایک ناول’ صرف ایک پ ±ل‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کرشن چندر کے ناول ’غدار‘ کا پشتو میں ترجمہ قسط وار سنگت میں شائع ہوتا رہا۔ اسکے بعد کتابی شکل میں بھی آچکا۔۔شاہ محمد مری صاحب کی پچاس کتابوں پر تبصرے کتابی صورت میں ‘محبت کی گواہی ‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ کبریٰ مظہری کی نظموں کے تراجم کی بھی کتاب شائع ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی کی براہوی شاعری کا میرا ترجمہ بھی آ چکا ہے۔۔مختلف موضوعات پر مضامین بھی شائع ہوئے ہیں۔ افسانوں کی کتاب ’جو کہا افسانہ تھا‘ ابھی شائع ہو کر آئی ہے۔
4۔ لکھنے کا آغاز کب، کیسے کیا؟ پہلی تحریر کیا تھی؟ پہلی تحریر کی اشاعت کب، کہاں ہوئی؟
سکول ہی سے تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا تھا۔ میٹرک کے امتحان کے بعد میں چھٹیوں میں’بلا عنوان‘ کے نام سے افسانہ لکھا تھا جو ہسپتال میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی بے حسی کے بارے میں تھا لیکن یہ افسانہ آج تک شائع نہیں کروایا۔ شاعری بھی کرنے لگی تھی۔ میرا پہلاکالم ’پولیس اور سہولیات‘ کے نام سے جنگ میں 1999 میں چھپا اور پھر وقتا فوقتا چھوٹے چھوٹے کالم جنگ میں چھپتے رہے۔
پہلا افسانہ مشرق میں 28 مئی 2005 کو ’مسکراہٹ کے چند لمحے‘ کے عنوان سے چھپا۔ اور میری نظم ’قافلے کی گھنٹی‘ بھی اپریل 2005 میں ہی چھپی۔
5۔ افسانہ نگاری کی طرف کیسے مائل ہوئیں؟
نثر میں اپنے خیالات کے بہترین اظہار کا ذریعہ میں افسانے کو ہی سمجھتی ہوں، جس میں کم وقت میں ایک اہم موضوع کے بارے میں قاری تک اپنی بات پہنچائی جاتی ہے۔ افسانہ میری پسندیدہ صنف ادب ہے، اس لیے شروع ہی سے مختلف افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھتی تھی اور پھر جب خود لکھنا شروع کیا تو افسانہ ہی پہلے لکھا۔
6۔ ناول کا خیال کیسے ا?یا؟ ناول لکھنے کا سبب کیا رہا؟
سچ یہ ہے کہ ناول لکھنے کا خیال پہلے نہیں آیا تھا بلکہ جو کچھ میں محسوس کیا کرتی تھی، وہ لکھتی رہتی تھی۔ لکھتے لکھتے میرے پاس اتنا مواد جمع ہو گیا کہ اچانک خیال آیا کیوں نہ ناول چھاپا جائے۔ تب میں نے اس سارے مواد کو ترتیب دینا شروع کیا اور اس کو ناول کی شکل دی، جو ’صرف ایک پ ±ل‘ کے نام سے چھپا۔
7۔آپ اپنی تحریروں کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟ ´
میرا یہ خیال ہے کہ ادب برائے ادب نہیں ہونا چاہیے بلکہ ادب برائے اصلاح ہونا چاہیے۔ میں اسی سوچ کے تحت لکھ رہی ہوں کہ جس کو پڑھ کر ایک تھوڑی سی مثبت تبدیلی آئے ہمارے معاشرے میں۔ ہمارے معاشرے کے فضول رسم و رواج جیسے ولور یا لب، غیرت کے نام پر قتل، وغیرہ پر لکھا ہے، لکھ رہی ہوں۔ امید ہے کہ کبھی تو یہ مثبت تبدیلی آ ہی جائے گی۔ اور ہاں، محبت تو میری تحریروں کا موضوع رہے گی ہی کہ یہی تو ان سارے مسائل کا حل ہے، کہ ہمارا پیغام ہے محبت جہاں تک پہنچے۔
8۔ تراجم کا خیال کیسے آیا؟ اس کا سبب؟
دنیا میں بے شمار بہت اچھا لکھنے والے رہے ہیں جنھوں نے ایسے موضوعات پر لکھا ہے کہ جن کو پڑھنا ہمارے لیے اور ہمارے لوگوں کے لیے نہایت ضروری ہے، جن کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ پھر شاہ محمد مری نے بہت سی کتابوں کے تراجم کیے، جن میں کافی سارے میں نے پڑھے۔ تب میرے دل میں بھی آیا کہ میں بھی ترجمہ کروں لیکن مجھ سے کتاب کا انتخاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس سلسلے میں مری صاحب نے ہی مجھے ’غدار‘ کے چننے میں مدد کی، جو کہ ہمارے ملک کے آج کے حالات کے عین مطابق ہے۔
9۔ ادب میں کس سے متاثر ہیں اور کیوں؟
ڈاکٹر شاہ محمد مری کی سوچ، ان کے اچھا لکھنے اور پڑھنے کی طرف ان کی motivational personality اور خود بہت اچھا لکھنے سے میں بہت متاثر ہوں۔ کچھ بھی لکھنے اور پڑھنے کے لیے اگر کوئی اچھا گائیڈ بھی انسان کو مل جائے تو یہ اس کی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ میں بچپن سے ہی پڑھتی رہی اور جو کچھ ملتا رہا، پڑھتی رہی۔ صرف اپنا شوق اور مرضی دیکھتی رہی۔ کیا پڑھنا چاہیے، کیا لکھنا چاہیے، کوئی ایسی واضح سوچ میری نہیں تھی لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ میں ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب سے ملی جو ایک روشن خیال اور ایک غریب و استحصال زدہ طبقے کے لیے تڑپنے والے اور ان کے دکھوں پر لکھنے والے انسان ہیں۔ انھوں نے میرا رخ صحیح کیا، مجھے گائیڈ کرنا شروع کیا کہ پڑھنا کہتے کس کو ہے اور پڑھا کس کو جانا چاہیے۔ انھوں نے مجھے کتابیں بتانا کرنا شروع کیں اور جب میں نے وہ سب پڑھنا شروع کیا تو میرے ذہن کے وہ پردے بھی وا ہو گئے، جو ابھی خفتہ حالت میں تھے۔ اور میرے سامنے موضوعات کی بھرمار ہو گئی کہ دکھ تو ہمارے گرد اس قدر ہیں کہ جن پر لکھیں تو ہم کیا نہیں لکھ سکے۔
مری صاحب کے علاوہ کرشن چندر، منٹو، منشی پریم چند، بیدی مجھے بہت پسند ہیں، اور شاعر ساحر لدھیانوی، فہمیدہ ریاض مجھے بہت زیادہ پسند ہیں۔
10۔ مستقبل میں آپ کے ادبی منصوبے کیا ہیں ؟
بس پڑھتے رہنا، اچھی اچھی کتابیں اور لکھتے رہنا ۔ غریب کے دکھوں، ظالم رسم رواج، عورت، استحصال کے بارے میں۔ کبھی ناول، کبھی افسانہ اور کبھی مضمون کی صورت میں اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کروں گی اور اچھی اچھی کتابوں کے پشتو اور اردو میں ترجمے بھی کرنے کا ارادہ ہے۔
11 آٹھ مارچ کے حوالے سے. عورت کے بارے میں اظہار خیال۔۔
کہتے ہیں کسی قوم کی حالت دیکھنی ہو تو اس کی عورت کی حالت دیکھو۔۔ ہماری آبادی کا نصف عورت ہے۔۔ یہ بات طے ہے کہ کبھی بھی کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ عورت برابری نہ دی جائے. عورت ایک جنس نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے۔ان تمام حقوق کی اسی طرح حقدار ہے جیسا کہ کوئی مرد۔ تعلیم دینا بہت زیادہ ضروری ہے۔۔عورت جب معاشی طور پر آزاد ہوگی تب وہ مرد کی غلامی سے، اسکے چنگل سے آزاد ہوگی۔ عورت کا مرد سے کسی قسم کی مقابلے بازی یا جھگڑا نہیں۔۔وہ بس یہ چاہتی ہے کہ مجھے بھی وہ سارے حقوق ساری سہولیات دی جائیں جن کی وہ حقدار ہے اور جو مرد کو میسر ہیں۔۔ مست نے اٹھارویں صدی میں ہی کہ جب عورت کے لئے کوئی آواز اٹھانا ناممکن تھا ،یہ کہا کہ میری سمو کے پاو ¿ں میں جوتے نہیں وہ دشوار گزار راستوں سے ننگے پاو ¿ں گزرتی ہے۔ بس یہ ہے کہ مرد عورت کو اپنا ساتھی سمجھے، غلام نہیں۔۔جب ساتھی بن کر معاشرے میں شانہ بشانہ چلیں گے تب ہی ترقی ممکن ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*