دوران تعلیم بے شمار مزاحیہ مضمون نگاروں کو پڑھا، جن میں عبدالمجید سالک ، اے حمید شوکت تھانوی ، ابنِ انشاءعظیم بیگ چغتائی وغیرہ تھے لیکن پطرس بخاری کے مضامین ”مرزا کی ہائیسکل “ ” کتے“ میبل اور میں ” میں ایک میاں ہوں“ اور سجاد حیدر یلدرم کا مشہور معروف کلاسیک مضمون“” مجھے میرے دوستوں سے بچاﺅ“ کا سحر آج تک قائم ہے ۔
جن لوگوں نے یہ مضمون پڑھا ہے وہ یقیناً اس حقیقت کو جانتے ہوں گے کہ دوست جو اس قدر ہمدرد اور عزیزاز جان ہوتے ہیں ۔بعض اوقات ایسی صورتحال ہوتی ہے کہ ان کے خلوص کونہ ٹھکراسکتے ہیں اور نہ سنبھال سکتے ہیں ۔کچھ ایسی ہی کیفیات اور حالات سے جب مجھے دو چار ہونا پڑا تو بے اختیار مضمون نگار کی روح سے کہنا پڑا۔
آعندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
توہائے گل پکار میں چلاﺅں ہائے دل
ہوا یوں کہ جب میرے شوہر کا انتقال ہوا تو ”بیوہ“ کا لیبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میرے ساتھ جُڑ گیا ۔ مجھے اول تو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ بیوہ کے لفظی معنی کیا ہیں۔ سطحی مطالب تو یہ ہے کہ ”بیوہ“ وہ عورت جس کا شوہر فوت ہوجائے جدائی اس کا مقدر بن جائے ۔ تو ایسی صورت میں میرا خیال ہے کہ ”بیوہ“ کی بجائے ” بے وجہ“ یا” بے خطا ” کا لفظ زیادہ مناسب تھا ۔ ”بی وی“ جیسے میٹھے اور ہلکے لفظوں کو ایک دم ”بے واہ“ جیسے ٹھاہ کر کے لگنے والے لفظوں میں بدل دینے سے بے چارگی اور بے بسی کا عجیب تاثر ہماری سماجی زندگی میں خود بخود اُبھرنے لگتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے ”بیوہ“ کے جن کا کھلا منہ بیوی کو ہڑپ کر گیا ہے ۔ اور بیوی سے بیوہ کا سفر داستان میں تبدیل ہو گیا ہے ۔
خیر یہ ٹائٹل ملنے کے بعد مجھے شرعاً عدت کی مدت پوری کرنی تھی ۔ جدائی کا غم اور یہ چار ماہ دس دن کا عرصہ ۔ اُف ! لگتا تھا زمین آسمان بدل گئے ہیں، میں کہیں معلق ہوں۔ کسی نئی زندگی کا آغاز۔ جیسے میں ، میں نہیں کچھ اور ہوگئی ہوں۔ میرے چاروں طرف لوگوں کا ہجوم ، آیات کریمہ کا وِرد، درودو سلام، گھٹلیاں ، تسبیاں ، تلاوتیں ، اہتمام ختم قرآن وغیرہ وغیرہ۔ اللہ جانے اتنے ذکر و ازکار اور عبادات کسی کے مرنے کے بعد ہی کیوں یا دآتے ہیں۔ بہر حال یہ سب تھا اور میرے مضمحل اعصاب۔ صبر، صبر ایک ہی لفظ سن سن کر مجھے لفظ صبر سے نفرت ہونے لگی۔
اس دوران رشتے دار، بہن بھائی ، دوست احباب، ہمسائے ، غرضیکہ ہر تعلق کے لوگ میرے پاس آئے ، اپنی اپنی طرز سے دلجوئی کی اور میرے شوہر کی مغفرت کے لیے دعا کی۔ تعزیت کے لیے آنے والوں میںویسے تو ہر طبقے کی عورتیں تھیں لیکن ، بیوہ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی ۔ جن کی وجہ سے اُن دنوں میرا بلڈ پریشر تو بڑھا ہی بڑھا لیکن میرا جنرل نالج بھی بہت بڑھ گیا۔ ہر بیوہ عورت میرے پاس آکر میرے شوہر کی مفارقت کا چند روایتی جملوں میں افسوس کا اظہار کرتی ، میرے دلجوئی کم اور اپنا دکھ درد بیان کرتے گھنٹوں صرف کردیتی ۔ وہ بتاتی کہ اُس کا شوہر کس بیماری کی وجہ سے فوت ہوا۔ اس کے لیے کیسا کیسا دکھ درد بیان کرتے گھنٹوں صرف کردیتی۔ وہ بتاتی کہ اُس کا شوہر کس بیماری کی وجہ سے فوت ہوا۔ اس کے لیے کیسا کیسا علاج کروایا، کون کون سی دوائیاں استعمال کیں، کس کس ہسپتال اور کون کون سے ڈاکٹر ز کو دکھایا، کتنی محنت اور خدمت کی ، گویا تشخیص ہونے سے لے کر موت تک کے مراحل بڑی تفصیل سے بتاتی ۔ ایسی بے شمار اموات کا ذکر سُن سُن کر میری اضطرابی کیفیت یہ ہوگئی کہ جب کوئی عورت اپنی داستان شروع کرتی تو میں دعا کرتی کہ اس کے شوہر کو جلدی موت آجائے ، کہانی ختم ہو اور میری جان چھوٹے ۔
اِن عذابِ جاں حالات سے گزرنے کے دوران اتنا ضرور ہوا کہ ایلو پیتھی ، ہو میو پیتھی ، سرجری ، میڈیکل سائنس ، نئی نئی ٹیکنالوجی ، جعلی اور اصلی ادویات ، اچھے بُرے ہسپتال، ہسپتالوں کا نظام ، پرائیویٹ کلینکس اور نالائق ڈاکٹروں کے نام میرے علم میں آگئے ۔ یہی نہیں کچھ کمزور عقیدے کی عورتوں کا خیال تھا کہ اُن کے شوہر کی بیماری کی وجہ جادو کے اثرات تھے اور کوئی عورت نظر بد اور حسد کو موردِ الزام ٹھہراتی۔ تو اِس طرح مجھے کافی پیروں، فقیروں، دم درود، تعویز گنڈے اور جادو ٹونے والے بزرگوں اور عاملوں کے بارے میں علم ہوا۔
کچھ عورتیں اپنے مرحوم شوہر کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملادیتیں (جو عموماً مرنے کے بعد ہی یاد آتی ہیں) کچھ کا تو بے تحاشہ رونا بھی جیسے فرض تھا ۔ کسی لمحے میرے آنسو اگر خشک ہوبھی جاتے تو مجھے زبردستی اُن کے ساتھ رونا پڑتا۔
زیادہ تر بیوہ خواتین کے مسائل مال و جائیداد کے ہوتے ۔کسی کی جائیداد کو سسرال والوں نے ہڑپ کر لیا۔ کہیں پاور آف اٹارنی کا جھگڑا، کہیں بچوں نے بٹوارے کا سلسلہ شروع کردیا ، کوئی اخراجات پورے کرنے کے لیے گھر بیچ کر در بدر ہوگئی، کوئی کچہریوں اور وکیلوں کے چنگل میں پھنس کر برباد ہوئی، ایک آدھ نے قتل اور اغواءکے بھیانک واقعات بھی بیان کیے ، بچوں کی خاطر یا مجبوری کی صورت میں دوسری شادی کرنے والیوں کے الگ مسائل تھے ، کسی نے بہادر بن کر نوکری کی لیکن معاشرہ آڑے آگیا۔ کسی کو اولاد کی نافرمانی اور لاپرواہی نے مارا تو کسی کو بے اولاد ہونے کی صورت میں محتاجی کا سامنا تھا ۔ صرف ایک یا دو پرسنٹ بیواﺅں کی زندگی مطمئن اور پرسکون تھی جس کا کریڈٹ بھی وہ اپنی عقلمندانہ سوچ اور روّیے ہی کو دیتی تھیں۔
جس طرح جوان بیوہ، درمیانی عمر کی اور بوڑھی بیوہ کے الگ الگ مسائل تھے اُسی طرح زیادہ پڑھی لکھی ، کم پڑھی لکھی اور ان پڑھ بیوہ عورتوں کے جدا جدا مسائل تھے ۔
بہر حال یہ سب کھتائیں سُن سُن کر بیوہ کے حقوق و فرائض قانونی تقاضے ،اُن کا حل ، معاشرتی ، شرعی ، نفسیاتی اور مالی مسائل کا کافی علم ہوا اور میں چار ماہ دس دن کی مدت میں سقراط بن گئی تھی۔
بوڑھی بیوائیں(جو عموماً بڑھاپے میں عبادت گزار بن جاتی ہیں) مذہب کے حوالے سے صبر کی تلقین کرتیں، قرآن و احادیث کے حوالہ جات سے بیوہ کے درجات بتاتیں ، کچھ تو نصیحتوں کے انبار لگا دیتیں کہ مرد کی جب ڈھال نہ رہے تو کیا کیا احتیاطی تدابیر اور محتاط رویے اختیار کرنے چاہئیں۔ ایک نیک خاتون نے اپنی زندگی کی کایا پلٹنے کا واقعہ سنایا کہ اس نے شوہر کے مرنے کے بعد درس کی محفلوں میں دل لگا لیا۔ باقاعدہ حجاب اور نقاب لینا شروع کردیا۔ ایک جوان بیوہ نے اپنے احساسِ محرومی کو یوں بیان کیا کہ ”شوہر کیا فوت ہوا مجھے میری عمر سے کئی سال بڑا بنا دیا گیا ، ہر میلاد کی محفل میں مجھ سے دعا کروائی جاتی ہے ، ہر جگہ بزرگوں کی سی عزت واحترام ملتا ہے لیکن شادی بیاہ اور مہندی کی رسومات کے دوران مجھے احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ یہ رسم بیوہ نہیں سہا گنیں کریں گی“ ۔
کچھ سہا گنیں بھی بیواﺅں جیسی تھیں ، جن کی شوہروں سے علیحدگی تھی یا مدتوں سے باہر کے ممالک میں تھے ان کی لمبی لمبی داستانیں تھیں ۔ مرتی کیا نہ کرتی۔ یہ سب سننی پڑیں، اب میں اتنی بداخلاق اور بدتمیز تو تھی نہیں کہ باہر بورڈ لگا دیتی ”بیوہ عورتوں کا داخلہ منع ہے “ یا اپنی ملازمہ سے کہہ سکتی کہ آنے والی مہمان سے پوچھ لے وہ بیوہ ہے یا سہاگن۔ میں اتنی خود غرض اور بے مروت بھی نہیں تھی کہ ہمدردی کے لیے اپنا قیمتی وقت نکال کر آنے والی بیواﺅں سے کم از کم اُن کی دکھ بھری کہانیاں نہ سنوں۔
میں جہاں اپنی اِن بے شمار خیر خواہ بیواﺅں کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں وہاں اماں نوابی کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہے ۔ یہ عورت ایک ”ماسی“ تھی ۔اُس کی آنکھوںمیں میرے لیے رحم نہیں محبت کی چمک تھی اُس کا شدت سے انتظار ہوتا، آتے ہی میرے سر میں تیل سے مساج کرتی ، میرے کندھے دباتی ، معاوضہ طلب نہ کرتی، باتوں باتوں میں ہنساتی رہتی ، اُردو پنجابی کی کہاوتیں سناتی شاہ حسین ، بلھے شاہ اور بابا فرید کا کلام گا کر سناتی مثلاً
سدانہ باگیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں
سدانہ ماپے حسن جوانی سدانہ صحبت یاراں
عمر بھر کی ساتھی آنکھیں
رو رو کے بے نور نہ کر
اور کہتی۔
پُتر ! جند کلی اے جند کلی اے
اے جندا مانت اللہ دی
جدوں چاوے کول بُلا لیوے
ہمیں زندگی میں بے شمار لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ کچھ کو ہم معمولی سمجھ کر درخورِ اعتناءنہیں سمجھتے ، انہی میں اماں نوابی جیسی مدبر اور دانشور عورت کی محبت اور رفاقت اور غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہونے والی نصیحتوں سے صبرو سکون کا درس بھی سیکھا ۔ یہ اماں نوابی کے الفاظ تھے کہ
” پُتر! دراصل انسان دوسروں کے غم میں اپنے غموں کا مداوا تلاش کرتا ہے ۔اُس کے دکھ سے ملتی جلتی صورتحال جہاں پیدا ہوتی ہے وہاں وہ اپنے دکھ یاد کر کے روتا ہے “۔
میرے غمناک دنوں میں مجھے بیوہ پا کر بیوہ عورتوں نے اس طرح اپنے دکھوں کا مداوا کیا کہ مجھے گھبرا کے کہنا پڑا ۔
” مجھے بیوہ عورتوںسے بچاﺅ“