پامالیِ تقدسِ زن ، وا مصیبتا
دیکھا ؟ سلوکِ اہلِ وطن ، وا مصیبتا
مر کے بھی گل زمین کے دکھ آ رہے ہیں یاد
تربت میں بھی اداس ہے من ، وا مصیبتا
کیسے لگائیں سینے سے ، پسماندگان کو
مدفن میں جل رہا ہے بدن ، وا مصیبتا
ہے مہر گڑھ گواہ کہ رکھا گیا ہمیں
پابندِ ارضِ رنج و محن، وا مصیبتا
بادام کے درختوں نے جھک کر کہا کہ آج
برباد ہو گیا ہے چمن ، وا مصیبتا
باقی ہے دل میں جہدِ مسلسل کی آرزو
اور روبرو ہیں دار و رسن، وا مصیبتا
لکھا ہوا کلام ہے ، پڑھ لیجئے ظفر
ممکن نہیں ہے کوئی سخن ، وا مصیبتا