~ میں پھر اُٹھوں گی ~

تم جو چاہو تو
ایسی تاریخ لکھو
جو صرف جھوٹ اور فریب ہو
اور مِرے وجود کو خاک آلود کردو
لیکن خاک کی مانند،
میں پھر اٹھوں گی!

کیا میری شوخیاں تمھیں مایوس کر گئی ہیں؟
اور سیاہ بادلوں نے تم پہ اُداس اندھیرا کردیا؟
کیونکہ میں ایسے چلتی ہوں جیسے
میرے دیوان خانے میں
تیل کے کنویں
اُبل رہے ہوں!

مہتاب اور قمر کی مانند
کِرنوں کی یقینی کی طرح
امید کی اٹھتی اُٹھانوں سے
میں پھر اُٹھوں گی!

تم مجھے ٹوٹا ہوا دیکھنا چاہتے ہو نہ؟
جھکی گردن اور خم آلود نظروں کے ساتھ
گریہِ روح سے ٹپکے اشکوں جیسے
شکستہ کندھوں کے ساتھ

میری خود اعتمادی بھی تمھیں بُری لگتی ہے نہ؟
دل گرفتہ کیوں ہوتے ہو
میں تو ایسے ہنستی ہوں
جیسے میرے صحن میں
کانیں سونا اُگلتی ہوں!

تم جو چاہو تو
اپنے تیکھے لفظوں سے مجھے مار ڈالو
اپنی چُبھتی نظروں سے مجھے کاٹ ڈالو
اپنی نفرت کی آگ سے مجھے بھون ڈالو
لیکن ہوا کی مانند
میں پھر اُٹھوں گی!

کیا میرا پُرشکوہ جسم دیکھ کر تم ناامید ہوجاتے ہو؟
سوچتے تو ہوگے کہ
میں رقص کرتے ہوئے
ایسے کیوں تھرکتی ہوں جیسے
جہاں میری رانیں ملتی ہیں
وہاں ہیرے جُڑے ہوں!

تاریخ کے شرمناک کوچوں سے نکل کر
میں پھر اُٹھوں گی
ماضی کی دردناک جڑوں سے نکل کر
میں پھر اُٹھوں گی

ایک گہرے اور وسیع سمندر کے مابین
سرکش اور بے قابو لہروں کے جیسے
خوف و دہشت کی تاریک راتوں کو بُھلا کر
میں پھر اُٹھوں گی

ایسے روشن دن کی طرح
جیسے آج تک رُژنِ لازم کو
کوئی آنے سے روک نہ سکا
میں پھر اُٹھوں گی

وہ ساغرِ دل لے کر
جو میرے اجداد مجُھے دے گئے
میں محکوموں کا خواب اور اُمید ہوں
میں پھر اٹھوں گی
میں پھر اٹھوں گی
میں پھر اٹھوں گی۔۔۔

 

( رُژن بلوچی لفظ ہے
جس کا مطلب طلوع ہوتے سورج کی روشنی ہے
سب سے قریبی معنی کرنوں کے بھی لئے جاسکتے ہیں)

 

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*