سنگت پوہ زانت

 

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی و ادبی نشست اپنے معمول کے مطابق مہینے کے آخری اتوار 28 فروری 2021 کی صبح پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ نشست کی صدارت سنگت اکیڈمی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جاوید اختر نے کی۔ یہ نشست 13 فروری کو بلوچستان کے نمائندہ شاعر عطا شاد کی برسی، 21 فروری کو مادری زبان کے عالمی دن اور 8 مارچ کو محنت کش عورتوں کے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے منعقد ہوئی۔ نشست میں مذکورہ موضوعات پر گفتگو ہوئی اور مضامین پڑھے گئے۔ نظامت کے فرائض ڈپٹی سیکریٹری ڈاکٹر عطااللہ بزنجو نے ادا کیے۔
انھوں نے گفتگو کا آغاز عطا کے اس شعر سے کیا؛
عطا سے بات کرو چاندنی سی شبنم سی
خنک نظر ہے مگر دل الائو رکھتا ہے
اس نے حاضرین کو بتایا کہ سنگت اکیڈمی کی آج کی نشست اس لحاظ سے اہم اور خاص ہے کہ آج ہم فروری اور مارچ کے تین اہم موضوعات پہ بات کرنے والے ہیں۔ 13 فروری کو جیسا کہ بلوچستان کے نمائندہ شاعر عطا شاد کی برسی ہے، اس حوالے سے ہم انہیں یاد کریں گے، ان کی شاعری پڑھیں گے، دہرائیں گے۔ اسی طرح اکیس فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مقالہ پیش کیا جائے گا۔ جب کہ مارچ میں محنت کش عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے بھی مضمون پیش ہو گا اور اس پہ بات ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ یہ تینوں نظریاتی موضوعات ہیں اور سنگت اکیڈمی ایک نظریاتی ادارہ ہے۔ ہم اپنے نظریاتی فریم ورک میں ہی ان موضوعات پہ بات کریں گے تاکہ فکر و نظر تازہ رہیں اور ہمیں اپنی ذمے داری کا احساس بھی رہے۔
عطا شاد پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں نے کہا کہ عطا ہر لحاظ سے ایک مکمل اور منفرد شاعر تھے۔ مجتبیٰ صاحب کا ان سے متعلق یہ جملہ مشہور ہے کہ ”عطا کے ہاں بلوچستان بولتا ہے” لیکن عطا کی زبان وہ سب کچھ بولتی ہے جو اچھی اور بڑی شاعری کا خاصا ہے۔ عطا نے نئی لفظیات کو جنم دیا جو ایک اسلوب بن گیا۔ ان کے بعد بلوچستان میں لکھنے والا ہر شاعر کسی نہ کسی سطح پر ان سے متاثر رہا۔
وحید زہیر نے ان کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عطا پہاڑ جیسی شخصیت تھے، انھوں نے پہاڑ جیسے غم سہے۔ زیادہ رنج قریبی دوستوں سے ہی ملا۔ وہ ایک ایسا بیوروکریٹ تھا جس سے بیوروکریٹ بھی بیزار رہتے تھے، کیوں کہ اس کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عطا شناسی پر جو کام ہونا چاہیے وہ ہوا نہیں۔ ان کی شاعری پر تو کام ہوا ہے مگر ریڈیو ڈراموں کو انھوں نے جو نئی جہت دی، اس پر ابھی کسی نے بات نہیں کی۔ ہمیں باقاعدہ عطا شناسی کی طرف جانا ہو گا۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عطا کی رومانویت پر تو بات ہوتی ہے، اس کی بلوچیت پہ کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ اس کی بلوچی شاعری کو اب تک نہیں چھیڑا گیا جو ترقی پسند افکار سے بھری پڑی ہے۔ عطا کیوں کہ خود بھی قبائلی سسٹم کا مارا ہوا تھا اس لیے اسے ذات پات اور فیوڈلزم سے شدید نفرت تھی۔ وہ مارشل لائوں کے سخت دور میں بھی طریقے طریقے سے بات کہتا رہا۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس زمانے میں کوئی تحریک کوئی ادارہ کوئی پلیٹ فارم ایسا نہ تھا جہاں وہ اپنا غبار نکال سکتا۔ اس کے باوجود اس نے اپنی بات کی۔ خصوصاً بلوچی شاعری میں اس کا اسلوب، ڈکشن، بلوچ ثقافت، روایت اور تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ اس نے چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بحر کے تجربات کیے۔ اور ایسے اہل زبان سے داد لیتا رہا جنہیں بلوچ اور بلوچستان کا کچھ پتہ نہ تھا۔ اس کے فن پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام باقاعدہ کتابی صورت میں ہونا چاہیے۔
عابد میر نے اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ عطا شاد کا بلوچی کلام اس کے اردو کلام سے کہیں زیادہ ارفع ہے۔ موضوع اور اسلوب ہر دو لحاظ سے اردو کا عطا شاد اور بلوچی کا عطا شاد بالکل مختلف ہے۔ جیسے غالب نے کہا تھا کہ اگر میری شاعری کو جاننا ہے تو فارسی کی طرف آئو اردو تو بس وہاں تک آنے کا راستہ ہے۔ بالکل ایسے ہی عطا شاد کا شعری گلستان تو بلوچی میں ہے، اردو کلام محض اس مہکتے باغ کی طرف جانے والی پگڈنڈی ہے۔
یہ تجویز سامنے آئی کہ عطا شاد کے فن پر تفصیلی بحث کے لیے سنگت کو ایک الگ نشست رکھنی چاہیے جس میں اس کے فن کے مختلف پہلوئوں پر بات ہو، اور پھر ایک سیمینار رکھا جائے جس میں ریسرچ پیپر پڑھے جائیں۔
دوسرے حصے میں عابدہ رحمان نے محنت کش عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے مقالہ پڑھا جس میں اس نے مادرسری اور پدرسری نظام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے آٹھ مارچ کے تاریخی حوالے سے بھی بیان کیا۔ مضمون پر بات کرتے ہوئے جیئند خان جمالدینی نے کہا کہ اس میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ معاشرتی تبدیلیوں کے نتیجے میں تحریک بنتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تحریک کے نتیجے میں ہی معاشرتی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اس پر کہا کہ دیکھیے یہ ایک پورا سائیکل ہے اور یہ مظاہر آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ تحریک اور سماجی تبدیلی کا سرکل مستقل چلتا رہتا ہے، یہ آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے، اس کے لیے کوئی فارمولا نہیں ہوتا۔
اس کے بعد نجیب سائر کا مادری زبانوں کے حوالے سے مقالہ عابدمیر نے پیش کیا۔ جس میں کہا گیا کہ مادری زبانوں کو معدومیت سے بچانے کے لیے ان کا ہر سطح پر نفاذ ضروری ہے۔ کوئی زبان بولنے والوں کی تعداد سے چھوٹی بڑی نہیں ہوتی، ہر زبان اپنے بولنے کو یکساں طور پر عزیز ہوتی ہے۔ اس لیے ہر زبان کو یکساں احترام اور سپیس ملنا چاہیے۔
آخری حصے میں دیوان کی قراردادیں آزات جونیئر نے پیش کیں؛
1۔ آج کا اجلاس روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سدباب کا مطالبہ کرتا ہے۔
2۔ برما میں عوام کے حقوق پر شب خون مار کر جس طرح مارشل لا نافذ کیا گیا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
3۔ ہم ہندوستان میں جاری کسان تحریک سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔
4۔ مرکزی حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا جو اعلان کیا ہے، اس کی روشنی میں صوبائی حکومت بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو یقینی بنائے۔
5۔ مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
آخر میں صدر مجلس جاوید اختر نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ آج کی مجلس بھرپور رہی۔ یہ بات درست ہے کہ عطا شاد پہ مزید نشستوں کی ضرورت ہے۔ عطا شاد حسن و جمال کا شاعر ہے۔ اس کے ہاں بلوچستان کا مکمل لینڈ سکیپ ملتا ہے۔ فن و مقاصد کے لحاظ سے وہ مکمل شاعر ہے۔ اس پر اب تک علمی و تحقیقی نوعیت سے کم اور تاثراتی لحاظ سے زیادہ لکھا گیا ہے۔ یونی ورسٹی سطح پر بھی جو تھیسز لکھے گئے ہیں ان میں جنرل سٹیٹ منٹس ہیں، کوئی تھیوری اپلائے نہیں کی گئی۔ اور امن میں کوئی ریسرچ میتھڈ ہے نہ متھوڈو لوجی ہے ۔ شاعری کے علاوہ اس کے دیگر کام جیسے لغات نگاری، ڈرامہ نگاری اور تراجم وغیرہ پہ تحقیق نہیں ہوئی ہے ۔ سنگت اکیڈمی مستقبل میں اس حوالے سے یقینی طور پر علمی کام کو آگے بڑھائے گی۔
جہاں تک عورتوں کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ہمارے سماج میں دہرے استحصال کا شکار ہے۔ ہم اسے معاشی نجات دلانا چاہتے ہیں ۔ اس لیے اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مسلسل بات کرنے کی ضرورت ہے۔ سنگت یہ بات پہلے بھی کرتا رہا ہے، ہم آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
اسی طرح مادری زبانوں کے حوالے سے سنگت کا موقف واضح ہے کہ ہم تمام مادری زبانوں کو قومی زبان سمجھتے ہیں اور پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک اس کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم کسی ایک زبان کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے یا کسی بھی زبان کی حاکمیت کو مسترد کرتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری زبان کا نفاذ جبر کی علامت ہے اور ہم ہر قسم کے جبر کی مذمت کرتے ہیں۔
مرکزی سیکریٹری جنرل کے صدارتی کلمات کے بعد نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*