( ملتان میں اس بچھڑے ساتھی کی تعزیتی ریفرنس پہ )
اس ملک کی سیاست میں 1970سے 1992کے سال بہت مست اور دلبرسال رہے ہیں ۔ یہ دراصل وہی سال تھے جب یہاں زبردست اور ہمہ پہلو نظریاتی جنگ عروج پہ تھی ۔اور ان 25برسوں میں اگر کوئی عوامی اور جمہوری الہڑ سیاسی پارٹی رہی تو اس کا نام پاکستان سوشلسٹ پارٹی تھا۔ رائٹسٹ تو تھے ہی ، مگر یہ وہ زمانہ بھی تھاجب پیپلز پارٹی زبردست انداز میں ابھری آئی تھی۔ اور اس نے سوشلزم کے زبردست نعرے لگائے۔بے شمار لیفسٹ ،اس پارٹی میں شامل ہوتے جارہے تھے۔ یہ ایک ایسا نظریاتی کنفیوژن تھا کہ اگر سوشلسٹ پارٹی اس کا مقابلہ نہ کرتی تو عوامی جمہوری سیاست برباد ہوجاتی ۔
پاکستان سوشلسٹ پارٹی کو ایک نعمت یہ حاصل تھی کہ ،کم از کم صوبہ پنجاب میں ،تقریباًہر تحصیل کے اندر اُس کی تنظیم موجود تھی۔ ہر قصبے اور شہر میں اس پارٹی کاآفس تنظیمی ، سیاسی اور نظریاتی مرکزکے بطور موجود تھا۔ ہر دفتر میں وہاں کا اسلم ریڈیو سیاسی ورکر کو فکری اور سیاسی آسانیاںدینے مستعد طور پر موجود تھا۔ ہر شہر کے پارٹی آفس میں رُشد وہدایت بھرا ہفت روزہ عوامی جمہوریت ،بنڈلوں کی صورت میں کُھلتا تھا ۔ اُسے پڑھنا، اس پہ بحث مباحثہ کرنا ایک فریضہ ہوتاتھا۔یوں عملی طور پراخبار کے چھپنے کے پانچ چھ دن بعد ایڈیٹر سی آر اسلم ہر گاﺅں کے نیم پڑھے کسان کی زبان سے بول رہا ہوتا۔ کیڈر اور لیڈر شپ میں سوچ کی ایسی ہم آہنگی کسی اور پارٹی کو نصیب نہ تھی۔
میٹنگ کا لفظ سب سے شناسا لفظ بنا ہوا تھا۔ وجہ یہ کہ میٹنگیں ریگولر بھی ہوتی تھیں اور فریکو ئنٹلی بھی۔ ابھی بنیادی یونٹ کی میٹنگ ہو رہی ہے تو اگلے ہفتے ڈسٹرکٹ کمیٹی کا اجلاس ہے ۔ آج صوبائی کمیٹی مل رہی ہے تو اگلے ماہ سنٹرل کمیٹی کی میٹنگ ہے ۔ ابھی کسان کمیٹی کی میٹنگ ہے، تو کسی قریبی تاریخ کو سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نوجوان زمین دَھلاتے ترانے گا رہے ہوتے ۔پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن ، ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن ، انجمن ترقی پسند مصنفین ۔ الغرض میٹنگیں ہی میٹنگیں ۔ پارٹی سے وابستہ شخص کے لیے سر کھجانا بھی ایک عیاشی تصور ہوتی تھی۔
اور اِس پارٹی کے سفید ریش؟ ۔ بھئی وہ تو جیل پلٹ لوگوں کی ایک جھرمٹ ہوا کرتے تھے ۔ وہ ہمہ وقت حرکت و سرگرمی والے لوگ تھے ۔دیدہ و دل کے اندھیاروں میں دیے جلاتے رہنے والے لوگ ۔ایک ہی شخص کے اندر راستبازی ، سادگی، تدبر اور کارکنی کے سارے اوصاف مجتمع تھے۔ ایسے اذہان جنہوں نے پیچیدہ ترین سیاسی حالات میں بھی اپنی نظریاتی سیاست جاری رکھی۔ بلوچستان دیکھو تو رحیم مندوخیل نوجوانوں کی سٹڈی سرکل لے رہا ہے، پشتونخواہ میں عبدالوحید ایڈووکیٹ اور رزاق لالا پارٹی پرچم لیے صوبے کے کونے کونے کو متبرک بنا رہے ہیں۔سندھ میں کنیز فاطمہ خاکروبوں کے جلوس کی قیادت کر رہی ہوتی۔ اور پنجاب ؟،اسے تو ہیرے لوگ عطا ہوئے تھے ۔
یہ ستھرے لوگ ایک ایک کر کے پردہ کرتے گئے۔حالیہ سالوں میں یہ میدان اس زمانے کے سفید ریشوں سے سمجھو خالی ہوتا رہا۔بلوچستان اور پختونخواہ کے وہ لوگ نہ رہے ،سندھ میں بس ایک کنیز فاطمہ کی حیاتی کی خیر۔ ملتان سے چاون براداران گئے ، سعید احمد خان ، اورملک عطاءاللہ نہ رہے ۔ ڈیرہ غازیخان میں گلزار سائیکل ورکس والا مستری ولی محمد گزر گیا، میاں محمود اور سلیم بھٹہ قبرستان کے حوالے ہوئے اور سی آر اسلم ، ملک اسلم، خواجہ رفیق ، ہیرا پہلوان اور اسلم ریڈیو لاہور کو خالی کر گئے۔۔۔ ملک محمد علی بھارا پارٹی کی اِس نسل کا آخری چراغ تھا جوگُل ہوا۔اُس کا ” دی لاسٹ سَپَر“ 25کے بجائے 17دسمبر کو برپا ہوا۔
خواتین وحضرات! 2020اُس کی وفات کا سال ہے ۔ اِس سال اور 1935میںاُس کی پیدائش کے بیچ 85سال آتے ہیں ۔ اس 85برس میں سے بچپن ، تعلیم اور غیر سیاسی ہونے کے پندرہ برس نکال دیں تو باقی ستر سال بنتے ہیں۔ اور اُس کے یہ پورے ستر سال تحریک سے اُس کی وابستگی کے سال تھے ۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر 70برس ۔ ایک بار جب 1949میں دہاڑی کے اندر افتادگان خاک کا پرچم تھاما تو بے شک وہ وہیل چیئر کا ہوگیا مگر عوام سے وفا کا جھنڈا ہاتھ ہی میں رہا۔
ایوب خان سے اگرپنجاب کا کوئی علاقہ بھڑ گیا تھا تو وہ ملک صاحب کا وہاڑی تھا۔ پھرجب بھٹو آیا تو اُس نے ڈنڈے کے ساتھ ساتھ رشوت اوربلیک میلنگ سے بھی سیاسی ورکرز کو توڑنا شروع کیا۔ مگر نہ اُس کے یہ حربے کام آئے اور نہ اس کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بھارا جی کو ہلا پایا ۔وہ ثابت و سالم ایمان کے ساتھ اپنی پارٹی ہی میں رہا۔اسی طرح بھارا کا بھینچا ہوا مُکہ ضیا الحق کے جبڑے کے تتر بتر ہونے تک تناہی رہا۔
ہم نے اُس کے اصل جوہر دیکھے ہی ضیا کے زمانے میں تھے۔ ضیا نے سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی لگادی تھی۔ پکڑ دھکڑ، پولیس ، لاٹھی، سیاسی ورکرز کی جاسوسی۔۔۔ ہلنے بھی نہ دیتا تھا سیاسی کارکنوں کو۔ ایسے ماحول میں نظریاتی سیاست بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔ سب کچھ خفیہ طور پر کرنا ہوتا ہے ۔ ملک صاحب اس کام میں ماہر ترین اور متحرک ترین شخص تھا۔ملک صاحب پولیس کو زبردست انداز میں دھوکہ دے سکتا تھا۔ وہ بہت ہنر کاری سے سرکاری کارندوں سے ہاتھ کرتا تھا۔وہ خفیہ سیاسی سرگرمیوں کا ماسٹر تھا۔اپنی شناخت بدل بدل کر پارٹی ورکرز سے رابطہ کرنا، دن کے بجائے راتوں کو سفر کرنا، اور گرفتاری کے احکامات میں پولیس کے ہاتھ بھی نہ آنا اور سیاسی کام بھی جاری رکھنا ۔ ملک صاحب ایک چھلا وہ رہا ۔ وہ انقلابی کی سی پھرتی سے خود کو تلاش کرتی پولیس سے بچاتا رہا۔ اس طرح سارے مارشلاﺅں کے دوران پاکستان کے تمام بڑے شہر اُس کی روپوشی کے اڈے رہے۔ وہ کبھی انورکے نام سے پولیس سے چھپتا، کبھی وہ” حاجی صاحب“ تھا، کبھی حلیہ بگاڑ دھوتی پہنتا اور بلوچستان رووپوشی میں بلوچی لباس میں ہوتا ۔
وہ نقلی پاسپورٹیں اور کاغذات تیار کرنے میں ماہر تھا۔ اس لیے ضیا مارشل لاکے دوران پارٹی نے اسے بین الاقوامی امور کاانچارج بنا دیا۔وہ مختلف حلیوں اور ناموں کے ساتھ وفود ملک سے باہر بھیجتا۔ اُس زمانے میں بہ مشکل کوئی ایسا بین الاقوامی جمہوری اجتماع ہوتا جس میں یہاں کے محنت کشوںکی نمائندگی نہ ہوتی ہو۔ وہ دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں سے پارٹی کے بہت ہی مستحکم ،گرمجوش اور برادرانہ تعلقات استوار رکھنے میں کامیاب رہا۔ وہ خود بھی عالمی سوشلسٹ تحریک کی یک جہتی کے فروغ کے لیے کئی کئی ممالک پھرتا رہا۔ اور وہاں کی ٹریڈ یونین ، پارٹی، اور عوامی تحریک سے روابط بڑھاتا گیا۔
یہ متحرک شخص آخری چند برس ،بری صحت کے بڑھاپے میں جیا۔اُس کی زندگی کی ایک لائف لائن ،ٹیلیفون رہ گئی تھی۔ وہ سنگتوں سے باتیں کرتاتھا، اُن سے مشترک ماضی کو دوہراتا، حال کی بدحالی کی غیبتیں کرتا ،اور مستقبل کے بارے میں گفتگوکے اندر مرجانے کی ” اگر مگر“ ڈالتا ۔ اسی ٹیلیفونی عادت کی بدولت پارٹی کی صفوں میں غم خوشی کی ہر بات سب سے پہلے ملک صاحب کو معلوم ہو تی تھی۔ مسرت کی سیاسی خبریں تواِس فیوڈل مارشل لا زدہ ملک میں کیا ہوں گی؟۔ بس دکھ کی باتیں ہوتیں ، بیماریوں ، مرگوں اور صفوں میں شکست وریخت کی باتیں۔
ملک صاحب اور اُس کے دوستوں کی سیاست میں ایک چیزازل سے تسلسل کے ساتھ ملے گی۔ وہ ہر حکومت میں حزب اختلاف میں ہوتے تھے۔ بالخصوص مارشل لاﺅں کے تووہ دشمن تھے۔ مارشل لا بھی لگتے بھی انہی لوگوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لیے تھے۔ مارشل لا انقلابی افراد سے لے کر اُن کی مقامی ضلعی صوبائی اور مرکزی قیادت تک کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہے ۔ اُن کی تنظیم کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہوتی ہے۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سول حکومتیں کوئی رعایت کرتیں۔ بنیاد پرست مارشل لا کی گود میں پلے یہ بورژوا لیڈر مارشل لا سے بھی دوہاتھ آگے ہوا کرتے تھے ۔ لہذا یہ انقلابی اُن سول بورژوالیڈروں کی حکمرانی میں بھی جیل میں یاریل میں ہوتے ۔ لہذا خواہ ایٹم بم والا شریف تھا یا گھوڑوں کو مربع کھلانے والا زرداری، بھارا نے کبھی بھی طبقاتی رقیب کو رفیق نہ کہا۔ اُس نے ملک کے45فیصد رقبے پہ آگ اور خون کی بارش کرنے والے پرویز مشرف کی بھی ڈٹ کے مخالفت کی اور حالیہ کٹھ پتلی عمران حکومت بھی اس کی تنقید کے نشانے پہ رہی۔
خواتین و حضرات ! ۔ اگر مکھن چہروں ، کارخانے داروں ، فیوڈلوں اور ابریشمی نرم ہاتھوں والے بالائی طبقے سے یاری نہ تھی تو پھر اُس کی نبھتی کس سے تھی؟ تو پھر اس کا دوست کون تھا ؟۔اُس کے دوست وہ عام لوگ تھے جن کے پیروں کی ایڑیوں پہ محنت سے دراڑیں پڑی ہوتیں۔ وہ اُن میلے کچیلے لوگوں کا یار تھا جو محنت کے زم زم سے دُھلے رہتے تھے ۔ ہزاروں بے نام کسانوں کا دوست جن سب کے نام خود اُسے بھی نہیں آتے تھے ۔
ملک صاحب توہین کردہ بلوچ عوام کا دوست تھا۔ وہ فاٹا کے دربہ در کردہ لوگوں کاسنگت تھا۔وہ سیاسی قیدیوں کے پسماندگان کا نگہبان تھا۔وہ مردانہ سماج میں پسی عورت کی روحوں کے نِیل پہ تسلی کا لفظ تھا۔ وہ صنعیفوں کی آہوں پہ ریسپانس دینے والا سیاستدان تھا۔ وہ مظلوم قوموں کا سانول یار تھا۔
اور اُس کی یہ دوستیاں محض قلمی دوستیاں نہ تھیں ۔ وہ تو کسانوں کو باقاعدہ سیاست سکھاتا تھا۔ وہ اُن کا شعور کھیت کے منڈیر پہ موجود استحصال سے اور پرلے جاتا ۔ وہ ان کا شعور اس نظام کے ہیڈ کوارٹر تک لے جاتا جو گناہ ، گند، اور شیطانیت کا وزیراعظم ہاﺅس ہے۔ وہ لوگوں کو جرم وجبر کے نظام کی تفصیل سے آگا کرتا ۔وہ اُس خفیہ طریقے کی تفصیل بتاتا جو محنت کش کے نوالے کو اُس کے منہ کے بجائے جاگیر دار کی توندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ انہیںریاستی اداروں کی طبقاتی طرفداری دکھا تا تھا۔ وہ لوٹ کھسوٹ کو پیروں ، ملاﺅں اور سیکورٹی کے پوشوں سے چھپانے والے اداروں کے تقدس کے پردے پھاڑتا رہتا ۔اُس سے ملاقات کرنے بعد ہر مزدور اور کسان سٹراند کی کراہت کو زیادہ محسوس کرنے کی صلاحیت پاتا۔ سٹراند جو حکمران طبقات کے سیکریٹریٹ میں جنم لیتی ہے ۔
ملک صاحب انسان کواوپری طبقات کا محض مخالف نہیں بناتا تھا ۔ وہ تو انہیں اُن سے نفرت سکھاتا تھا ۔اور خواتین وحضرات ! حاکم طبقات کی محض مخالفت کرنے میں اور اُن سے شدید نفرت کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔
بھارا صاحب کسانوںکے دلوںمیں فیوڈلزم سے نفرت کو پالنے پوسنے کے نغمے گاتا تھا۔ وہ اِس نفرت کی تنظیم کرتا تھا ، اور پھر اس تنظیم کی وسعت اور مضبوطی کے لیے کام کرتا رہتا ۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک حکمران طبقات سے نفرت کی اس تنظیم کا وفادار بیٹا رہا۔
خواتین وحضرات ۔ محمد علی بھارا کے پیروکار اُس کے پیغام کو ہی دہراتے رہنے کے پابند ہیں ۔ گوکہ ہمیں سننے والے کان تعداد میں بہت کم ہیں۔ اور وہ کان بھی دشمن کے شوروغوغا کے بیچ ہماری باتیں واضح طور پر نہیں سن پاتے۔ہمارا کارواں مضمحل ہے،تنظیم انتہائی نحیف نزار ہے ۔ مگر اُس سب کے باوجود یہ سیاسی کام کرتے ہی رہنا ہے۔ یہ محض کام نہیں ہے ، محض اشرف انسانی فریضہ نہیں ہے۔ یہ تو قبروں میں پڑے یاران ِ وفا کا ارمان ہے اُن کی وصیت ہے ۔
اس اندھیر میں صرف ایک کام ہوسکتا ہے ۔ وہ یہ کہ جو جہاں ہے اپنی مضبوط ایمان کے ساتھ جما رہے اور اپنے حصے کا سیاسی کام کرے اور اس عالمی تحریک کی اپنی مقامی موم بتی کو بھجنے نہ دے۔
ملک محمد علی بھارا بالخصوص بلوچستان کے دکھ سکھ کا ساتھی رہا تھا۔ وہ ہمارے غموں کا کندھا تھا ، وہ ہماری شادمانیوں کا بیلی تھا ۔ جب بھی ناپاک آ ہنی ہاتھ بلوچستان کے نرخرے کی طرف بڑھتے ملک صاحب ہماری حمایت کا پمفلٹ اپنے کسانوں میں ضرور بانٹتا۔صدق و صفا بھرے اس انسان نے بلوچستان کے دوستوں کو ہمیشہ اپنا سمجھا ، ہمیں گائیڈ کیا، ہماری سوچوں کی ژولیدگی کی استری کی، ہماری پروگریسو اور قوم دوست تنظیم کاری کی حوصلہ افزائی کی ،اور ہمیں انٹرنیشنلزم سے جڑے رہنے میں مدددی۔
میں اُس سب کے لیے تیرا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں ،سنگت۔