دنیا ہی بدل گئی

پچھلے سوا سال میں تو ہماری دنیا ہی بدل گئی ایک نظر نہ آنے والے وائرس کی بدولت. سونا جاگنا، کھانا پینا، آنا جانا، پڑھنا لکھنا، گھر دفتر، غرض سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے. یہ وبا ہے یا بلا جس نے مسجد ، مندر، گردوارہ، چرچ، کعبہ ، کلیسا سب سونے کردیے۔ عبادت کے آداب بدل گئے۔ میل ملاپ، پکنک، پارٹیاں، میلے ٹھیلے، دعوت ہلا گلا سب بند . صرف گھر کی چہار دیواری اور گھر میں رہنے والے وہ چند افراد جنھیں آپس میں بات کرنے کی فرصت نہیں ملتی تھی، اب وہی محور اور مرکز ہیں ، قریبی دوست رشتے دار بھی صرف فون یا ویڈیو کال پر ملتے ہیں بات کرتے ہیں اللہ اللہ خیر صلا۔ لوگ گھروں میں مقید ہیں۔ اس ظالم کے خاتمے تک، آن لائن اسکول کالج چل رہے ہیں، دفتر بھی گھر میں کھل ہیں . عجب بیزاری کا موسم ہے شاعر بھی وبا سے متاثرہ شاعری کر رہے ہیں، آن لائن مشاعرے، کانفرنسز، مذاکرے ہورہے ہیں۔ موت کا عالم ہے بہر حال وبا ہے اور اس سے نپٹنا ہے.
پھرنا پھرانا ختم کرد، آیا گیا تمام شد
عہدِ وبا شروع شد، عہدِ وفا تمام شد
سعود عثمانی

یہ وبائی انقلاب ایک وائرس کی بدولت آئی۔ یعنی کووڈِ19 جسے عرفِ عام میں کورونا وائرس کہا جارہا ہے.اس نے وبا کی صورت میں تمام دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔کورونا کی بدولت معاشرتی آداب ہی بدل گئے. سماجی فاصلہ رکھنا لازم ہوگیا، مصافحہ اور معانقہ ممنوع ہوا، کھانسنا چھینکنا جرم قرار پایا۔پہلے جو بد تہذیبی تھی تہذیب ہوئی دور سے آداب کہنا درست یا پھر ہیلو ہائے بائے وہ بھی چھ فٹ کے فاصلے سے. ہاتھ دھونا بار بار دھونا لازم ہوا، الکحل ستر فیصد سینٹائزر ہاتھوں پہ ملنا ضروری
خموش بیٹھے ہو کب سے کرونا بات کوئی
یہ بات سن کے وہ کچھ اور دور جا بیٹھا
باصر کاظمی

یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، حال احوال سب اس کی بدولت پتہ چل جاتا ہے، انٹر نیٹ کا شکریہ کہ اس وبا میں بھی رابطہ قائم ہے. ہم جیسوں کے لیے سوشل میڈیا سہارا ہے، دعائیں ، دوائیں ، ٹوٹکے تو چل ہی رہے ہیں، ویڈیوز بنا کر دل خوش کیا جارہا ہے کوئی کھانے کی تراکیب شیئر کررہا ہے کوئی کتاب کے اقتباسات پڑھ کر وقت گزار رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کورونائی ادب بھی تخلیق ہورہا ہے۔ اس وقت تو یہ ایک جزوقتی مشغلہ ہے ان شاءاللہ وقت بدلے گا اور حالات نارمل ہونگے تب اس شعری ادب کو ایک اہم مقام حاصل ہوگا کیونکہ اسے پڑھ کر وبا کے دنوں کی شدت کا اندازہ ہوگا
کیا کسی اور سے اب حرفِ تسلی کہیئے
روئیے خود سے لپٹ کر کہ وبا کے دن ہیں
عقیل عباس جعفری
کسی ایک ملک کا رونا نہیں بلکہ ساری دنیا کا کورونا ہے، ساری حکومتوں کا ناک میں دم کردیا اس نے سب کی اکانومی جواب دے رہی ہیں ہر ملک کی نظر ورلڈ بینک اور ڈبلیو ایچ او پر لگی ہے. ساری ترقی دھری رہ گئی
دنیا کو انتہائے ترقی پہ ناز تھا !
اوندھی پڑی ہے خاک پہ اس انتہا کے بعد
یشب تمنا

تمام ممالک اس کی ویکسین بنانے میں جٹ گئے ہیں، کئی کامیاب بھی ہوگئے، ڈاکٹر ز، اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا، بزرگ شہریوں کو بھی لگائی جارہی ہے، پاکستان میں بھی ٹیسٹنگ ہوچکی اب عام شہری کو کب تک ملتی ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*