بلقیس

 

بلقیس۔۔
اے شہزادی!
جلتی ہوئی ،
قبائلی جنگوں میں گھری
اپنی ملکہ کی رخصتی پہ
میں کیا لکھوں؟
بیشک،لفظ مُجھے الجھائے جاتے ہیں ۔۔۔
زخمیوں کے ایسے یہاں انبار دیکھوں
ٹوٹے ہوئے تاروں کے جیسے جسم
ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑوں کے جیسے جسم
یہاں میں پوچھتا ہوں، اے مری محبوبہ:
کیا یہ تمھاری تُربت ہے ؟
یا عرب قوم پرستی دفن ہے ؟

مابعد امروز میں تاریخ نہیں پڑھوں گا،
میری انُگلیاں جل چکی ،
میری پوشاک
لہو سے لبریز ہے
یہاں سے ہم پتھر کے دور میں
داخل ہوئے جاتے ہیں
یہاں سے ہم
ہر گُزرتے دن کے ساتھ
ہزار سال پیچھے کو لوٹ رہے ہیں
اس دور میں شاعری کیا کہہ پاتی ہے ، بلقیس ؟
بزدلی کے اس دور میں شاعری کیا کہہ سکتی ہے؟
عرب دُنیا تباہ و گُمنام ہوچکی
اوراسکی زبان بھی کٹ گئی
ہم سب مُجسمِ جرم ہے.

بلقیس۔۔۔
مجھے تُمھاری معافی چاہئے
شاید تمھاری زندگی
مری خطاوں ہی کا جُرمانہ تھا،
مُجھے یہ خوب خبر ہے
تمھیں موت سے ملوانے والوں میں
وہی ملوث ہیں
وہی
جو مرے لفظوں کو قتل کرنا چاہتے تھے !
خدا کی رحمت میں رہو ، دلکش حسینہ ،
شاعری ، بعد تمھارے ، ناممکن ہے۔۔

(بلقیس نزار قبانی  کی محبوبہ و بعد ازاں شریکِ حیات بنیں جو کہ بعد ازاں عراقی ایمبیسی میں بم دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ بلقیس کی موت نےنزار قبانی کی شخصیت و فن پر گہرا اثر مُرتب کیا)

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*