غزل

 

مکیں ادھر کے ہیں لیکن ادھر کی سوچتے ہیں
جب آگ گھر میں لگی ہو تو گھر کی سوچتے ہیں

کہ جب زمین ہی سیلِ بلا کی زد میں ہو
تو پھر ثمر کی نہیں پھر شجر کی سوچتے ہیں

اُڑے تو طے ہی نہ کی حدِ آشیاں بندی
اب اُڑ چکے ہیں تو اب بال و پر کی سوچتے ہیں

تُو میرا دل تو پرکھ میرا انتخاب تو دیکھ !
کہ اہلِ حسن تو حسنِ نظر کی سوچتے ہیں

یہ دشت ہے تو بگولوں سے کیا ہراسانی
سفر میں کیا کبھی گردِ سفر کی سوچتے ہیں

کہ مہر اپنا اثاثہ ہے ، قہر ان کی اساس
وہ اپنی شب کی ہم اپنے سحر کی سوچتے ہیں

ہمیں تو فکر مکاں کی بھی ہے مکیں کی بھی
حضور ! آپ تو دیوار و در کی سوچتے ہیں

یہ ایک ہم کہ کریں بات ماہ و انجم کی
اور ایک وہ کہ جو تیغ و تبر کی سوچتے ہیں

فقیر ، دل کے تصرف کی بات کرتے ہیں
نہ مال و زر کی نہ لعل و گہر کی سوچتے ہیں

انہیں دریچہء زنداں سے اک کرن کی سزا
جو تیرگی میں بھی روشن نگر کی سوچتے ہیں

جو بے خطا کا لہو تھا ، وہ کیا لہو ہی نہ تھا ؟
جب آ پڑی ہے تو آپ اپنے سر کی سوچتے ہیں

گِلہ ہے غیر سے کیا ، ہم نیاز مندوں کو
وہ عیب سوچتے ہیں ہم ہنر کی سوچتے ہیں

عطا میں ان کو بھی دل سے دعائیں دیتا ہوں
جو اپنے نفع اور میرے ضرر کی سوچتے ہیں

 

 

بشکریہ ماہ جبیں آصف

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*