28اکتوبر1972کا شمارہ ایک اہم موضوع سے شروع ہوتا ہے : پاکستان کی نظری اساس۔یہ موضوع اس لیے اہم تھا کہ بہت فنکاری اور قوت کے استعمال سے ہماری ساری تاریخ تبدیل کی گئی تھی۔ ہماری تاریخ ایک اچھی بھلی سامراج (انگریز) دشمن جدوجہد کی تاریخ رہی ۔ہم سب جانتے ہیں کہ انگریز کے خلاف پورا برصغیر جدوجہدکرتا رہا، کہیں کم کہیں زیادہ ۔ مگرجب آزادی ملی تو بنیاد پرستوں نے اِس پوری تاریخ کو یکسر تبدیل کیا۔ ہماری ساری جدوجہد کو سامراج دشمنی کے بجائے ہندودشمنی کا رنگ دیا گیا۔
انگریز دشمنی ،اور ہندودشمنی میں دن اور رات کا فرق ہے ۔ انگریز دشمنی کا مطلب کسی مذہب کی دشمنی نہیں تھی بلکہ ایک ایسی قوم سے دشمنی تھی جو سات سمندر پار سے ہم پہ حملہ آور ہوئی۔ یہ انگریز دشمنی دراصل سامراج دشمنی تھی جو کہ ایک روشن خیال ، غیرت مند اور آزادی پسند نظریہ ہوتا ہے ۔سامراج دشمنی تمام داخلی امتیازات سے بلند نظریہ ہے ۔ اس میں کوئی فرقہ واریت ، تنگ نظری اور بنیاد پرستی شامل نہیں ہوتی ۔
جبکہ ہندو دشمنی کسی ایک مذہب سے دشمنی ہے ۔
مگر جب آپ سامراج دشمنی جیسے عظیم مقصد پہ مبنی ہماری تاریخ سے ہماری جڑیں اکھاڑ پھینکیں گے اور ہمیں ”محض “ ہندودشمن بنادیں گے تو سماج سے برداشت اور ہم آہنگی کا حسین پرندہ تو اڑ جائے گا۔ اور انسان محض نفرت بھرا روبوٹ بن جائے گا۔ (اور بعد میں ہم نے دیکھا کہ ہوا بھی یہی )۔
یہ ہندودشمنی ہمارا سرکاری نکتہِ نظر بن گئی۔اوریوںہماری ریاست ایک سامراج دشمن اور آزادی پسند ریاست کے بجائے ایک بنیاد پرست ریاست بن گئی۔بہت محنت اور استادی سے بنیاد پرستی ریاستی اداروں کے ریشے ریشے میں پیوست کردی گئی ۔عدلیہ میں، سول اور ملٹری بیوروکریسی میں ،کالجوں یونیورسٹیوں میں ، نصاب اور خطاب میں ، تحریر اور تقریر میں ۔۔۔ ہر جگہ ۔ چنانچہ بنیاد پرست مارشل لا لگتے رہے ،کفر اور کوڑے بانٹے گئے ، فوجی کاروائیاں ہوتی رہیں، ملوک انسانوں کو شاہی قلعوں اور قلی کیمپوں میں اذیتیںدی گئیں اور غدار، پھانسی ،گولی روز مرہ کا وطیرہ بنے۔خارجی طور پر بدترین رائٹسٹ بن کر ، دنیا بھر میںآزادی پسند تحریکوں اور سوشلسٹ ممالک کی دشمنی چلتی رہی۔ اور امریکی سیاہ کار سامراج کی بدترین تابعداری کی گئی۔
اس فکری دیوالیہ پن کے خلاف سی آر اسلم اور اُس کے ساتھی ساری زندگی مورچہ زن رہے ۔ فکری دیوالیہ پن جو متشدد تھا اور نفرت سے بپھرا ہوا تھا ۔ عوامی جمہوریت اور اس کے ایڈیٹر نے فکری اور دانشورانہ میدان میں بھی اس درندگی کی مخالفت کی اور جلسہ جلوس اور کانگریس کانفرنس میں بھی اس کے خلاف ڈٹے رہے۔ اور یہ کام وہ انتہائی مستقل مزاجی سے کرتے رہے۔
مگر،اس مضمون کو پڑھتے ہوئے معلوم ہوا کہ اُس زمانے میں پالیسی سازوں نے اپنی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کی ۔ اُن کی طرف سے اب رائٹ کے ساتھ ساتھ ایک اور خطرناک نظریاتی حملہ بھی کیا گیا۔ اب کے یہ نظریہ بنیاد پرستی والا نہ تھا ۔ اب پیپلز پارٹی کو سامنے لایا گیا ۔ اور نظریے کو بڑی سرعت کے ساتھ پھیلایا گیا۔ مطلب یہ تھا کہ جو لوگ سرکاری نظریہ کے بجائے ایک روشن فکر اور پراگریسو نظریے پہ یقین رکھتے ہیں، اُن پہ نظریاتی یلغار کی جائے ۔ سوشلزم ہی کے نام سے سوشلسٹ افکار والی پارٹیوں تنظیموں میں فکری انتشار پیدا کیا جائے ۔بھٹو نے ساری سرکاری پروپیگنڈہ مشنری مزدوروں کسانوں کے اندر اِس کنفیوژن کو پھیلانے میں جھونک ڈالی۔اُس نے بائیں بازو کے بے شمار لیڈروں اوردانشوروں کو توڑا اور اپنی پارٹی میں شامل کردیا ۔ اب اُن ٹوٹے ہوئے لفٹسٹوںکا واحد کام لیفٹ کو توڑ کر لوگوں کو پیپلز پارٹی میں بھرتی کرنے کا بنا۔ یہ واقعی بہت خطرناک نظریاتی اور سیاسی حملہ تھا۔
کاروبارِ ریاست چلانے والوں کو معلوم ہوگیا تھاکہ جو نظریاتی اساس دو قومی نظریہ وغیرہ کے نام پہ وضع کی گئی تھی ۔ اب اُس میں وہ توانائی اور کشش باقی نہیں رہی تھی۔ عوام اپنے سیاسی تجربے سے جان گئے تھے کہ یہ نعرے اور نظریے استحصالی طبقوں کی بالادستی قائم رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ اپنی زندگیوں میں کوئی بھی اچھی تبدیلیاں نہ دیکھ کر انہیں اِن فرسودہ خالی خولی نعروں سے بیزاری ہوگئی تھی۔مزدوروں اور کسانوں میں سے بہت سے لوگ پیدا ہوگئے جو اپنے طبقے کی حکومت کے قیام کی ضرورت کا شعور پاگئے ۔ عوام کے اندر مزدور فلسفہ روز بروز مقبول ہوتا جارہا تھا۔ دانشوروں میں یہ بات قبولیت پاتی جارہی تھی کہ بنیاد صرف وہی نظریہ بن سکتا ہے جو یہاں کے محنت کش عوام کو بہتر ،خوش حال اور پر امن زندگی دے سکے اور انہیں بھائی چارے کی طرف لے جائے۔ اور وہ نظریہ سوشلزم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔“
اِس مضمون میں بہت صراحت کے ساتھ اِن نکات کی وضاحت کی گئی اور پیپلزپارٹی کی سیاست کے خلاف بھر پور دلائل دیے گئے۔ یہ خوبصورت اور سُچا نظریاتی مضمون ہے۔
اِسی شمارے میں ایک اور مضمون بھی ہے ۔ اُس میں مختلف اوقات میں مفتی محمود، غلام غوث ہزاروی، اور کوثر نیازی کے بیانات کو اکٹھا کر کے اُن پر اپنا ردعمل دیا گیا۔ اِن بیانات میں اُن تینوںنے کمیونزم کے خلاف بات کی تھی ۔ اُن سب نے ملک کے اندر سوشلزم کی بات کرنے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ جواب میں اخبار عوامی جمہوریت نے یاد دلایا کہ وہ پہلے ہی سے اِن سب کو مزدور دشمن سیاسی افراد تصور کرتا ہے ۔اور یہ کہ ”اجازت دینے یا نہ دینے “والی بات سے ثابت ہوا کہ اُن کا بورژوا جمہوریت تک سے بھی کوئی واسطہ نہیں ۔وہ اظہارِ رائے کی آزادی کے مخالف فاشسٹ افراد ہیں۔
چار نومبر کے شمارے میں بھی پیپلز پارٹی کے ” سُوڈو“ سوشلزم کی بے نقابی پر ہی توجہ مرکوز رکھی گئی ۔ اخبار نے مختلف اقدامات کے حوالے سے پیپلز پارٹی پر مزدوروں کے اندر نظریاتی کنفیوژن پھیلانے کے الزام کا اعادہ کیا۔ اخبار نے خصوصاً اُن بے پیندے والے گروہوں کا سختی سے محاسبہ کیا جو پیپلز پارٹی میں گھس کر سوشلزم لانے کی دروغ گوئیاں کر رہے تھے ۔ یہ سارے منشی طبیعت لوگ اخبار کے بقول بھٹو کا امیج بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور پیپلز پارٹی کو ایک انقلابی پارٹی کے بطور پیش کرنے کی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔
اگلا18نومبرکا شمارہ ”موجودہ عالمی سیاسی صورت حال “نامی مضمون سے شروع ہوتا ہے ۔ چونکہ عوامی جمہوریت اخبار کسان ،مزدور اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ پڑھتے تھے اس لےے اُس کے ایڈیٹر سی آر اسلم کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر بات بہت تفصیل اور باریکی سے کی جائے ۔ تاکہ یہ ،عام لوگوں کی سمجھ میں آجائے اور اُن کے دل پہ نقش ہوجائے ۔
اِس مضمون میں بھی اُس نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے بات شروع کی ۔ یہ کہ ،دنیا میں منڈیوں کی تقسیم پہ سرمایہ دار ممالک آپس میں لڑے اور دنیا کو تباہ وبرباد کرڈالا۔ مگر جب روس کا لینن سوشلزم کے ساتھ آیا تو اُس نے ممالک کو دوستی اور تعاون کی پیش کش کی، جنگوں کے شعلے بجھائے اور عظیم انسانی ہمکاری کا آغاز کیا۔اُس کے نتیجے میں بے شمار ممالک اور تحریکیں کپٹلزم کا راستہ چھوڑ کر سوشلزم کی طرف متوجہ ہوئیں۔
امریکی سامراج نے سوشلزم کی عالمی تحریک کو تباہ کرنے کا ہرہتھکنڈہ استعمال کیا۔ مگر ایک تو وہ سوشلسٹ ملکوں پر حملہ کرنے کی جرات نہیںکرسکتاتھا۔ اور دوسر اوہ دیگر سرمایہ دار ممالک کے ساتھ بھی منڈیوں کی تقسیم پہ مزید جنگ نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی فوجی قوت بڑھانے کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر سرمایہ دار ملکوں کو قرضوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کا راستہ اپنایا ۔ امریکہ اپنے زیر نگیں اِن ترقی پذیر مقروض ممالک کی آپس میں چھوٹی موٹی جنگیں کروا کر دونوں پہ اپنا اسلحہ فروخت کرتا رہا اور وہاں اِن حکومتوں کے ذریعے اصلی جمہوری عوامی تحریک کو کچلنے کا کام کرتا رہا اور اس سلسلے میں ان کی مدد کرتا رہا۔
مضمون کے مطابق ”پاکستان کی بر سراقتدار پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اپنے تمام نعروں کے باوجود جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور سامراج کے مفادات کی محافظ پارٹی ہے ۔ اور اسی طرح اپوزیشن کی پارٹیاں خواہ وہ جماعت اسلامی ہو یا جمعیتیں ہوں یا مسلم لیگیں سب کی سب رجعتی اور عوام دشمن کردار کی حامل ہیں“۔
اس بات پہ ضرور توجہ کیجیے کہ یہ باتیں 2021میں نہیں بلکہ 1972میں کی جارہی تھیں۔ اس قدر مصمم ، اورغیر متنزلزل موقف سی آر اسلم ہی کا ہی ہوسکتا ہے۔ وہ نہ ہوتا تو پاکستان کا لیفٹ ایک ” انضمام گاہ“ بن جاتا۔ اور لینن ،ٹراٹسکی ، بھٹو اور مزاری لیغاری ایک گھاٹ میں پانی پیتے نظر آتے۔
عوامی جمہوریت نے لکھا کہ ”سامراج ہمارے ملک کو قرضوں کے ذریعے لوٹ رہا ہے اور جاگیردار اور گماشتہ سرمایہ دار اُس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور اُس کی مدد سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ ان تینوں لعنتوں سے نجات محنت کش عوام کی جدوجہد سے ہی ممکن ہے اور اس کے لیے اولین کام ان کو بیدار اور منظم کرنا ہے“ ۔اس سلسلے میں اخبار کسان کانفرنسوں کے انعقاد کی تجویز دیتا ہے ۔ اُن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور وہاں باشعور فیصلے لینے کی امید کرتا ہے ۔
فروری کے شمارے میں ” جھلکیاں“ نامی مضمون کے ابتدائی فقرے یوں ہیں:”پیپلز پارٹی کی پروپیگنڈہ مشینری کو انتخابی مہم کے دوران چلانے میں نام نہاد سوشلسٹوں نے حصہ لیا اور اُس کی حکومت کے سائے میں اپنے اور اس پارٹی کے مخالف سوشلسٹوں کے خلاف رسواکن مہمیں چلائیں ۔۔۔اور پھر ہر دو چھوٹے صوبوں بالخصوص سرحد میں پیپلز پارٹی کے اس عزم کو سہارا دینے اور ہموار کرنے کی بھر پور کوشش کی کہ وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود سندھ پنجاب کی طرح سرحد و بلوچستان میںبھی حکمرانی کرے “۔اندازہ کیجیے کہ پیپلزپارٹی کے یہ نوبھرتی شدہ دانشور کس قدرموقع پرست لوگ تھے۔ انقلاب تو کیا انہیں تو عام جمہوری رویوں تک کی تمیز بھی نہ تھی۔اکثریتی حکومتوں کوتڑوا کر اقلیتی حکومتوں کو مسلط کرنا ۔ یہ تھا ان کاانقلاب !!۔اخبار عوامی جمہوریت اور پارٹی دونوں نے پیپلز پارٹی میں پناہ گزیں اِن سوشلسٹوں کے مزدور دشمن پروپیگنڈہ کو کبھی نظر انداز نہ کیا ۔ایک مستقل نظریاتی صفائی ستھرائی کا وظیفہ تھا جسے وہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
بلاشبہ یہ اہم سماجی فریضہ تھا ۔ اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو پیپلز پارٹی کے بلند آہنگ بھگوڑے لفٹسٹ ،مزدور تحریک اور اُس کی نمائندہ سیاسی پارٹی ،پاکستان سوشلسٹ پارٹی میں انتشار پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے۔اور جو تحریک پہلے ہی کمزور تھی مزیدنحیف ہوجاتی۔ اِس پروپیگنڈہ مہم کے دفاع میں سوشلسٹ پارٹی کی نظریاتی دستاویزات جو عوامی جمہوریت اور پمفلٹوں کی میں شائع ہوتی رہتی تھیں ،ایک زبردست قسم کا ڈھال تھیں۔مجھے اِس سے قبل اس اخبار کے 4 اکتوبر 1972کے شمارے کا یہ ابدی گولڈن فقرہ یاد آیا:”
۔۔۔کوئی باشعور سوشلسٹ کارکن نیپ ولی یا پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان سوشلسٹ پارٹی بورژوا پارٹیوں میں مدغم ہونے کے لیے نہیں بنائی گئی ہے “۔
ماہتاک سنگت کوئٹہ فروری2021