سوچ

الجھے ہوئے سے خیالات ہیں
الجھی ہوئی سی ہر اِک بات ہے
پر سوچ کا کیا کریں؟
یہ وہ دھارا کہ جو
زمان و مکاں کی کسی قید کو مانتا ہی نہیں
کہ بہنے سے ہے اس کو بس واسطہ
اس کی ہر تازگی اس کے بہنے میں ہے
روکنے کی سعی کارِ بیکار ہے
وہ تو عشاق ہیں
کہ آنکھوں کا رنگ
جن کی خوناب ہے
کیوں لوٹا گیا ان کا ہر قافلہ؟
اِک الاﺅسا تھا جو بھڑکتا رہا
کیوں نہیں ان کو مہلت ملی؟
کہ دریچہِ دِل کھلا جب کبھی
یاد کا ایک جگنو
تیرگی کے ہر اِک دور میں ہی چمکتا ملا
جام جب بھی اٹھا تو تیرے نام کا
کہ لگن اپنے دِل میں چھپائے ہوئے
بھاری قدموں کے سنگ
کبھی ریگزاروں کے راہی ہوئے
کبھی برف زاروں میں چلتے رہے
محض یار کے حکم پر!
ہوئے دربدر
لڑکھڑائے بہت پھر بھی چلتے رہے
اور کچھ دیر میں
رات آجائے گی
اپنے پہلو میں چاند اور تارے لیے
کیسے دیکھیں ادھر؟
کہ جم جائے جس پہ نظر
وہاں ایک بھی ایسا تارہ نہیں
ظلمتوں میں سفر
بہت پر خطر اور دشوار ہے
پر سوچ تو سوچ ہے
یہ کسی کے بھی روکے رکے گی نہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*