ہم اپنے اپنے زاویوں سے دیکھتے ہیں
تو جسے کسر کہتا ہے،
میرے زاویئے سے کسک ہے
کہ اہلِ دِل کا ورثہ تو یہی ہے
رات کے بستر پہ سونے والی شاہ زادی
دن کے اُجالے میں آنکھوں سے اوجھل ہو
چہرے نقابوں کی تہہ میں چُھپ گئے ہوں
لکھے حرف زندگی سے تاوان مانگتے ہوں
عاشق اپنی مُحبت کو دِل میں چُھپا کے پھرتا ہو
نادیدہ سے کُچھ سائے ساتھ ساتھ چلتے ہوں
محبتوں کی ساری کہانیاں
عذابوں اور سرابوں سے عبارت ہوں
تو کسک کیوں کر نہیں ہوگی؟
جسموں کے تَنُور جلتے ہیں
اِن تَنُوروں میں تیرے میرے شعور جلتے ہیں
ہاں زمان و مکان بدل جاتے ہیں
پر الاؤ تو ہر عہد میں بھڑکتے ہیں
تیرگی لیئے راتیں اضطراب رکھتی ہیں
راکھ میں دبی چنگاریاں پوری طرح نہیں بُجھتیں
تھوڑی تپش تو رکھتی ہیں
ہاتھ جلتے رہتے ہیں چہرے جُھلستے رہتے ہیں
تکریم تو حق تمہارا ہے
عاشقوں کی کہاں تکریم ہوتی ہے
عجز و انکسار کی مُورت
شاہ لطیف کی وہ عاشق عورت
الفاظ کا زہر پی کر
دن رات سُولی پہ چڑھتی رہتی ہے
آسیب کا سایہ ہے اس سارے قبیلے پر
اس کے سارے مرد اپنا سر کٹاتے ہیں
اور عورتیں ننگے سر اَن الحق کا ورد کرتے
اپنے پیاروں کے جنازے خود اُٹھاتی ہیں
ہر کوئی اپنے جہنم میں دِن رات جلتا ہے
سینوں میں لگی آگ سب کو جلاتی ہے
تو ٹھیک کہتا ہے کہ میں فاصلے پہ ہوں
کیا نہیں جانتا
کہ برف شعلوں سے بڑھ کر جلاتی ہے
آگ تیری میری نہیں ہوتی بس آگ ہوتی ہے!