چیخوف کا سوانحی خاکہ

29 جنوری 1860 غربت زدہ گھرانے میں چیخوف کی پیدائش ۔۔۔ دادا کھیت مزدور ، باپ اشیائے خوردونوش فروش ۔ ماں مہربان ، باپ سخت گیر ۔
چیخوف کی 1879میں ماسکو منتقلی ۔۔ 1884 میں میڈیکل ڈاکٹر کی ڈگری ۔۔۔۔ اور پھر قلمی شغل ، افسانہ ، ڈرامے ، صحافت
چیخوف نے لکھنے کی ابتداء مزاحیہ خاکوں سے کی لیکن بعد میں چیخوف کے مزاحیہ ادب پر سنجیدہ ادب کا غلبہ ہوچکا تھا ۔۔۔

1888 سے 1890 کا عرصہ چیخوف کے لئے بڑی آزمائش کا زمانہ تھا ۔ ٹی بی ہوجانے کے انکشاف ، دوستوں کی ناقدری ، ناقدوں کی سنگدلی اور بے رحمی نے اسے بہت ہلکان کیا ۔ ناقدوں کا خیال تھا کہ چیخوف اپنے دور کے سیاسی ، اخلاقی اور سماجی مسائل کے بارے میں دو ٹوک روئیے کے اظہار سے قاصر ہے ۔ چیخوف ، لیو ٹالسٹائی کے اخلاقی فلسفے سے متاثر تھا لیکن 1880 کی دہائی میں اس وقت کی روشن خیالی یا قدامت پسندی کی تقسیم میں اس نے کسی ایک کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا ۔۔ اس کا کہنا تھا کہ میں ترقی پسند ہوں نہ قدامت پسند ، ارتقاء پسند ہوں نہ پادری اور نہ ہی دنیا سے بے گانہ ۔ میری نظر میں سب سے مقدس انسانی جسم ، صحت ، ذہانت ، صلاحیت ، خواہش ، محبت اور آزادی ہے ، یعنی تشدد سے آزادی ، جھوٹ سے آزادی چاہے وہ کسی شکل میں ہو ۔۔۔۔۔
1890 میں کچھ افاقہ ہوگیا تھا ۔ اسی سال چیخوف نے دس ہزار میل کا سفر کیا ۔ اس وقت ریل نہیں تھی ۔ سائیبیریا کے اس پار روس کے دوسرے کنارے پر واقع جزیرہ ساخالن ( روسی کالا پانی ) میں اس نے قیدیوں کی زندگی کی سائنسی انداز میں تحقیق کی ۔ بعد میں یہ تحقیق کتابی صورت میں شائع ہوئی ۔۔ ساخالن کے تجربے نے چیخوف پر گہرے روحانی نقش مرتسم کئے تھے ۔ اس کے بعد کے کام میں ساخالن کے عبرت انگیز مشاہدے کے اثرات نمایاں ہیں ۔۔
ساخالن سے واپسی پر وہ ماسکو کے قریب ایک دیہی بستی میں آباد ہو گیا ۔ دیہی زندگی اسے بڑی مرغوب تھی ۔ یہاں اس نے انسانی ہم دردی کے عملی کاموں میں خود کو وقف کر دیا تھا ۔۔ آس پاس کے بے شمار دیہات کی طبی امداد ، قحط زدہ علاقوں میں رفاہی فلاحی کام ، ہیضے کی روک تھام ، مقامی مدرسوں کی تعمیر کے ساتھ نئے لکھنے والوں کے مسودوں کی اصلاح ۔۔۔۔
مکڑی نے سینے میں جال مضبوط کر لیا تھا ۔۔ معتدل آب و ہوا کے لئے یالٹا منتقل ہونا پڑا ۔ اس آزار کے باوجود چیخوف کی دماغی صحت شباب پر تھی ۔ قلم پر خوب آب و تاب تھی اور یہ کوئی طلسم کوئی افسوں پھونک دینے کے لئے بے تاب تھا ۔ یالٹا کی فرحت آمیز ہوائیں بھی مداوا نہ کرسکیں ۔۔۔۔ دماغ تو کوئی مجرد مظہر نہیں ۔ سارے جسم کے ربط و ارتباط کے بغیر تابکے اصرار کرے ۔ اعضائے جسمی کو ایک عدل و مساوات لازم ہے ۔۔ کچھ چیخوف نے بھی اپنے آپ سے مغائرت کی ۔۔ سماجی سرگرمیوں میں کوئی فرق آیا نہ قلمی شغل میں کوئی کمی ہوئی ۔۔۔۔
بزرگ ٹالسٹائی اور نوجوان ادیب اور لیڈر میکسم گورکی عزیز از جان تھے ۔ ان کے علاوہ اپنے زمانے کے لکھنے والوں سے رسم و راہ بھی جاری تھی ۔ روسی اکادمی سے سیاسی وجوہ سے گورکی کے اخراج کے خلاف چیخوف نے اس اکادمی سے 1902 میں استعفیٰ دے دیا ۔۔۔
1888 سے 1904 تک مختلف جرائد میں چیخوف نے پچاس سے زائد کہانیاں لکھی تھیں ۔ ان کہانیوں نے بعد میں بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی اور بین الاقوامی ادب کوئی چیز ہے تو چیخوف کی یہ کہانیاں بے شک اس کا جزو لازم ہیں ۔لیو ٹالسٹائی ، چیخوف کے بہت قائل تھے اور ٹالسٹائی کا فرمودہ ہے کہ چیخوف ایک لاثانی فن کار ہے ، زندگی کا فن کار ۔۔ اس کی تخلیقات سارے عالم انسانیت کے لئے ہیں ۔۔۔
چیخوف کے لئے مشہور ہے کہ اسے مختصر اور مناسب لفظوں میں مدعا بیان کرنے پر قدرت حاصل تھی ۔۔ کہتے ہیں وہ زندگی کی سطح سے نیچے جاکے حقائق تلاش کرتا تھا ۔ اسے اپنے کرداروں کے کے خفیہ ارادے فاش کر دینے کا ہنر آتا تھا ۔ بعض ناقدین کو شکایت ہے کہ چیخوف کے موضوعات اور اس کی کہانیوں میں گہرے پیچیدہ مسائل اور مسئلوں کے سیدھے سادے حل کی کمی ہوتی تھی ۔ بہ ظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں سے وہ کہانی کی بساط بچھاتا تھا اور ایک خاص مزاج اور ماحول کی استواری میں ماہر تھا ۔ اس خاص مزاج اور ماحول کو آسیب زدہ یا غنائ کہنا چاہئے ۔ ناقدوں کو اعتراض ہے کہ چیخوف نے اپنے وقت کی روسی زندگی بیان کرنے میں دھوکا دینے والی تیکنیک استعمال کی ہے اور یوں ادبی شاہ کار کے درجے سے گرجاتی ہیں ۔۔۔ مگر اس کے ناقدین اس واقعے پر متفق ہیں کہ 19ویں صدی کے روسی حقیقت نگاروں میں چیخوف کا شمار صف اول میں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔

الگ تھلگ ، خاموش طبع ، دیکھنے میں ایک بے جزبہ شخص ، مگر چیخوف میں عورتیں بڑی کشش محسوس کرتی تھیں لیکن سینے سے دماغ کی فصل قائم رہی ۔۔۔ اولگا کنپر سے شادی بھی محبت کا شاخسانہ تھی ۔۔ اولگا نے شادی کے بعد اداکاری ترک نہیں کی ، سو بس دونوں کوئی رسم نبھاتے رہے ۔۔۔ موسم سرما میں دونوں الگ الگ رہتے تھے ۔ او لاد سے محرومی بھی غالباً دونوں کو ایک دوسرے سے کنارے کنارے کئے رہی ۔۔۔۔۔
چیخوف کے زمانے میں عظیم روسی انقلاب کا خمیر تیار ہورہا تھا اور چار سو ایک جنگ کی جدل کا منظر تھا ۔۔۔ تیرہ سال بعد تاریخ ساز واقعہ رونما ہوا چاہتا تھا مگر چیخوف کو بڑی جلدی تھی ۔ مسیحا اپنی مسیحائی نہ کر سکا ۔

چیخوف کی جسمی شکست و ریخت اپنے انجام کو پہنچی ۔۔۔

کاش ہر آدمی کا انجام ایک جیسا نہ ہوا کرتا ۔۔۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*