کتاب : موہن جودڑو کا جوگی سوبھوگیان چندانی

کتاب : موہن جودڑو کا جوگی سوبھوگیان چندانی
مصنف : شاہ محمد مری

آخری بار یہ تہیہ کر لیا تھا کہ سنگت اکیڈمی کے عشاق کے قافلے کا جوبھی کتاب پڑھوں اس کا رویو بلوچی میں لکھوں گا۔ لیکن پھر ایک ایسے کتاب یعنی سوبھو صاحب جو کہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں پر لکھا کتاب پڑھا اب اس کا رویو بلوچی میں لکھوں تو سندھ والے شاید ناراض ہوں اور سندھی زبان تو مجھے آنے سے رہا۔ اس لیے اردو میں ہی عافیت جانی۔۔
یہ کتاب سوبھو صاحب کی سیاسی سوانح پر لکھی ہوئی ہے، اس کی پہلی اشاعت 1996 ، دوسری 2010 اور تیسری 2018 میں ہوئی۔ سوبھو سندھ سے تعلق رکھنے والے سوشلسٹ رہنما ہیں، بلوچستان میں تو لٹ خانہ ہی ہر انسانیت کے درد رکھنے والے کا جگہ بنا چنانچہ سوبھو صاحب بھی عبداللہ جان جمالدینی اور لٹ خانہ کے دیگر کامریڈوں سے لٹ خانہ میں ملے۔ سو بھو صاحب کا گاوں موہنجودڑو کے پاس گاؤں بندی ہے جوکہ ضلع لاڑکانہ میں آتا ہے۔ مہرگڑھ و موہنجو دڑو تو باپ بیٹے رہے ان کی دوستی تو ہزاروں سالوں سے چلتی آرہی ہے ، لیکن کیا کریں کہ ستر سال سے ایک آرٹیفیشل لبادے یعنی مذہب کو بنیاد بنا کر انسانوں کو مذہب کی آڑھ میں حقیر بنایا جاتا ہے ۔۔۔
مذہب اپنی جگہ لیکن سندھ کا سندھی بلوچستان اور بلوچ کےلیے مقدس تھا ہے اور رہے گا۔
سوبھو نے ابتدائی تعلیم تو یہیں سندھ سے حاصل کی زمانہ طالب علمی ہی سے کتابیں پڑھنے کا شوقین رہا۔ اس کا پسندیدہ شخصیت تو رابندناتھ ٹیگور تھا، اس کی شاعری اس نے لڑکپن میں ہی پڑھ ڈالی اس کےعلاوہ لینن کو بھی پڑھتا تھا۔
سوبھو اپنے موقف میں واضح اور کلئیر تھا ۔ سندھ کا یہ جوگی تعلیم کی خاطر سندھ سے کلکتہ میں شانتی نکیتن درس گاہ پہنچا اس کا سربراہ ٹیگور ہی تھا۔ شانتی نکیتن کے لائبریری میں کتابیں وہ بھی نایاب اور کمال کتابیں تو سوبھو کی ہی غذا بنتی رہیں ۔ سوبھو نے اپنی پوری زندگی انسانیت اور برابری کے لیے وقف کردی۔ وہ سیاست کرتاتھا سیاسی تنظیموں سے وابستہ رہا، جیلیں کاٹیں ، ازیتیں سہی لیکن انسانیت کی خاطر اس کےبلند نعروں میں کمی نہ آئی ۔ مارشلا ، سینسر شپ کےباوجود حق کی آواز بلند کرتا رہا ۔ وہ آخری دم تک انسانیت اور برابری اور غریب کسان کی جنگ لڑتا رہا ۔۔۔
کتاب ضرور پڑھیں ۔۔۔۔۔

آج کے ٹیکنالوجیکل دور میں جب پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکا ہے ۔ موبائل و انٹرنیٹ نے دنیا آپ کے ہاتھ میں تھما دی ہے لیکن افسوس کہ سندھ کے آ ج کا سوبھو کو بلوچستان کے آج کے عبدللہ جان جمالدینی کی خبر نہیں ۔ ہمارے بیچ انجانے دیوار کھڑے کیے گئے ہیں ۔۔ مہر گڑھ (باپ) و موہنجوداڑو (بیٹا) یعنی باپ بیٹے کی ہزار سالہ دوستی آج واپس زندہ رہنے کے لیے ترس رہی ہیں ۔ بلوچستان کے پنوں اور سندھ کے سسی کے فلسفے کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہی وہ واحد عمل ہے جو ضیاالحقی سوچ کو مار سکتا ہے جو قومیتوں کو ان کا حق دینے کی راہ بن سکتا ہے۔۔۔۔
چنانچہ ہمیں سوبھو ، شیخ ایاز اور شاہ کے فلسفے کو آگے بڑھانا ہے ، محبت کی سرزمینوں کو نفرتوں کا ہرگز ہونے نہیں دینا ۔ سندھ و بلوچستان کو آپس میں محبت کی بولی بولنی ہوگی اور محبت کی فضا ہم نے مل کر قائم کرنی ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*