ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے

 

لینن کی یہ کتاب 1903کی پارٹی کانگریس کے بارے میں تھی۔یہ کتاب فروری سے مئی1904کے دوران لکھی گئی۔ یہ ایک طرح سے اِس پارٹی کانگریس کی کاروائی کے منٹس پر مشتمل کتاب ہے ۔ کانگریس کے موضوعات ، اس کی بحثیں ، قرار دادیں ، اختلافات ، اتفاقات ، اکھاڑ پچھاڑ ، الجھنیں، سلجھنیں۔کانگریس تو ایک طرح سے نظریات کا ملا کھڑا ہوتی ہے ۔

اس کتاب کا اصل نام ہے ” ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے (ہماری پارٹی میں بحران )۔ اس کتاب میں کانگریس کے دوران ابھرنے والے اختلافات کا تفصیلی ذکر موجود ہے ۔ اِس میں ہونے والی سیاسی ،نظریاتی اور تنظیمی بحثوں پہ لینن نے اظہار ِ خیال کیا ہے ۔ اِن بحثوں کے نتیجے کیا نکلے ۔ اور پھر موقع پرستوں کی علیحدگی تک کی تفصیل دی ہے ۔ لینن نے اِس کانگریس میں بالآخر پارٹی کی بالشویک (اکثریت) اور مانشویک (اقلیت ) میں تقسیم ہونے تک کی وجوہات لکھیں۔ کانگریس کے فوراًبعد مانشویکوں کی مذموم حرکتوں کو کوسا۔
لینن پارٹی کی کانگریس کی اہمیت پہ بہت زور دیتا ہے۔” کیا زبردست چیز ہے ہماری کانگریس !۔ ایک آزاد اور کھلی جدوجہد ۔ رایوں کا اظہار ہوا ۔ مختلف سوچیں آگے آئےں۔ گروپ ظہور پذیر ہوئے ۔ ہاتھ بلند ہوئے ۔ ایک فیصلہ لیا گیا ۔ ایک مرحلہ گزر گیا ۔ آگے!۔۔۔۔۔ یہی زندگی ہے ۔ یہ دانشوروں کے بے اختتام ،اکتا دینے والی لفظ بازی نہیں ہے جو جب بھی اختتام پذیر ہوتی ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ معاملہ حل ہو گیا بلکہ اس لئے کہ وہ مزید بولنے سے تھک گئے ہیں ۔۔۔۔“(1)
اس کتاب میں اہم ترین موضوع انقلاب ،انقلابی پارٹی اور پارٹی ورکر تھے ۔ اگر ہم فرد یعنی پارٹی ورکر سے بات شروع کرکے انقلاب تک جائیں تو پڑھنے والے کی تفہیم کے لیے کچھ آسانی رہے گی۔
پارٹی ممبر:
اُس نے ایک جگہلکھا ایک پارٹی ممبر وہ ہوتا ہے جو پارٹی کے ٹیکٹکس والی لائن کو عمل میں لے جائے (2)۔ لینن ہر ہڑتال کرنے والے کو پارٹی ممبر نہیں سمجھتا تھا۔
وہ پارٹی ممبر کو شعور ور ڈسپلن اور جمہوریت کی تفہیم اور پابندی کا نمونہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے لکھا کہ ترقی یافتہ ورکرز کو محتاط نظر رکھ کر ”ناگزیر“ تنازعات کو ، رایوں کے ”لازمی “ کشمکش کو الزامات ، سازشوں ، جھگڑوں اور غیبتوںمیں پست ہونے سے بچانا چاہیے(3)
انقلابی ایک نشان زدہ شخص ہوتا ہے ۔اس کے کوئی ذاتی مفادات ، معاملات یا احساسات نہیں ہوتے ، کوئی ذاتی تعلقات نہیں ہوتے ، کوئی چیز اُس کی نہیں ہوتی ، حتی کہ نام بھی۔ اس کے اندر ہر چیز ایک واحد اور بلا شرکت غیر ے ایک منزل ہوتی ہے ، ایک واحد سوچ ، ایک واحد جذبہ ؛وہ ہے انقلاب“(4)
انقلابی کا تصور مکینکس اور مارکسزم کو بے ہودہ بنانے سے بہت ریڈیکل انداز میں قطع تعلق کی نمائندگی کرتا ہے ۔
اس نے لکھا کہ ایک انقلابی کو کبھی پتہ نہیں ہوتا کہ کب اُس کی جسمانی قوتوں کا کب امتحان ہو ۔ جیل میں ،یا جیل سے فرار ہونے میں۔
انقلابی پارٹی:
صفتی طور پر خوب ترقی یافتہ ممبروں والی انقلابی پارٹی کے لیے بھی لینن نے بنیادی باتیں کیں۔ اُس کی نظر میںایک انقلابی پارٹی صرف اُسی وقت اپنے نام کے شایان ِ شان ہوگی جب یہ ایک انقلابی طبقے کی تحریک کی واقعتاراہنمائی کرے(5)۔لینن کی نظر میں پرولتاری پارٹی ورکنگ کلاس تنظیم کی سپریم صورت ہوتی ہے ، ورکنگ کلاس کی ہر اول اورلیڈر ہوتی ہے ۔ اپنی اس کتاب میں لینن نے پارٹی کو مزدور طبقے کا اہم ہتھیار قرار دیا اور بتایا کہ پارٹی عوام کی صحیح راہنمائی اُسی وقت کرسکتی ہے جب اُس کی تنظیم جمہوری مرکزیت( ڈیموکریٹک سنٹرل ازم ) کے اصول پر کی جائے۔اوپر کے اداروں کی نچلے اداروں پر بالادستی (6)
پارٹی کو اگلے انقلابی ہدف تیار کرتے ہوئے سرگرم رہنا ہوگا ۔ اسے عوام الناس کے برجستہ دریافتوں کو انقلابی جدوجہد کے مجموعے کے ساتھ اکٹھا کرنا ہوگا ، جوکہ اُن کی درست طبقاتی جبلتوں سے شروع ہوتے ہیں ، اور انہیں شعور تک لانا ہوگا۔
مقامی تنظیموں کو برائے نام نہیں بلکہ پارٹی کی حقیقی اور اصل تنظیمی یونٹ بنانے کے لیے اَن تھک کام کی ضرورت ہے ۔ یہ دیکھنا کہ سارے بلند تر سٹینڈنگ باڈیز منتخب ہوں، جواب دِہ ہوں اور واپس لیے جانے کے تابع ہوں“ (7)
پارٹی معاملے کو زندگی میں اولیت دینے کی اُس کی تھیوری نے دنیا میں انقلابی پارٹیوں سے متعلق کنفیوژنوں کو دور کردیا ۔اس نے انقلاب سے قبل، انقلاب کے دوران، اور انقلاب کے بعد ایک انقلابی پارٹی کے رول کو واضح کردیا، اُس کی اندرونی ساخت سے متعلق درست راہ دکھائی۔
فطری طور پر حتیٰ کہ تصور میں بھی سب سے بڑی اور سب سے عمدہ پارٹی انقلاب نہیں”لا“ سکتی۔ مگر ایک موجودہ صورتحال میں پرولتاریہ جس انداز میں رد عمل کرتا ہے وہ زیادہ تر اس وضاحت اور توانائی پہ انحصار کرتا ہے جوکہ پارٹی اپنے طبقاتی مقاصد پہ بتانے کے قابل ہوتی ہے ۔
ہم نے بعد میں دیکھا کہ اگر پرولتاری پارٹی اس قدر منظم نہیں ہے کہ درست اور مناسب کلاس پالیسی یقینی بناسکے، تو انقلاب سے پہلے تو مشکلات ہوتی ہی ہیں۔ مگر اصل تباہی انقلاب کے دوران آجاتی ہے ۔ وہ اس لیے کہ انقلابی صورتحال کے وقت بے شمار لوگ انقلاب کی حمایت میں آجاتے ہیں۔ اور یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب یہ نئے حمایتی مدد کے بجائے کنفیوژن لاتے ہیں۔
لیننی نظریے کے مطابق پارٹی کو پرولتاریہ کو نظریاتی ، ٹکٹیکل ، میٹریل اور تنظیمی اہداف کے لیے تیار کرنا ہوگا جو کہ فوری اور تیز انقلابی صورتحال میں لازماًاُبھر آتے ہیں۔
انقلاب:
لینن نے کمال بات کردی کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کا اُس وقت تک سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جب تک کہ عوام الناس پوری بورژوازی کے خلاف کھلے طبقاتی جدوجہد میں طبقاتی طور پر باشعور اور منظم نہ ہوجائے اور تربیت یافتہ اور علم یافتہ نہ ہوجائے (8)

لینن کی کتاب ” ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے “ کے جواب میں ٹراٹسکی نے لکھا کہ اگر لینن نے کبھی بھی اقتدار سنبھالا تو ”پرولتاریہ کی ساری انٹرنیشنل تحریک کو سنجیدگی کے ایک انقلابی ٹریبونل کی طرف سے موردِ الزام کیا جائے گا اور مارکس کا شیر جیسا سر گلوٹین کے نیچے الگ ہونے والا پہلا سرہوگا “۔
ٹراٹسکی نے یہ بھی لکھا کہ لینن جب پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ بولتا ہے تو اس کا اصل مطلب ہوتا ہے “ پرولتاریہ پہ ڈکٹیٹر شپ“ (9)
کچھ ہی عرصے بعد جنیوا میں ایک میٹنگ ہوئی ۔وہاں ٹراٹسکی بھی لینن کے خلاف مارتوف کے ساتھ ہوگیا۔ بالآخر پلیخانوف نے ایڈیٹوریل بورڈ کو سابقہ صورت میں بحال کردیا ۔ یعنی ایکسلراڈ، پوتریسوف ، مارٹوف اور زاسولیچ کو کانگریس کے فیصلے کے برخلاف دوبارہ ایڈیٹوریل بورڈ میں ڈال دیا۔ لینن نے اُس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا ۔ اور اپنا استعفے پلیخانوف کو دیا:
” میں حتمی طور پر قائل ہوں کہ آپ اس نتیجے پر آجائیں گے کہ مانشویک ممبروں کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہے ۔ میں ”اسکرا“ کی ایڈیٹری سے استعفے دیتا ہوں ۔۔۔۔ مستقبل کے نتائج کی ذمہ داری آپ پر ہوگی “۔
مگر کروپسکایا نے اسکرا کی سیکریٹری کے عہدے سے استعفے نہ دیا۔ اس لیے کہ خفیہ خط وکتابت میں پورے روس اور یورپ کے قارئین کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔ وہ تو بعد میں منشویکوں نے اسے استعفٰے دینے پر مجبور کیا۔کروپسکایا نے پارٹی کمیٹیوں میں روابط برقرار رکھنے پر کام جاری رکھا۔ اس نے انقلابی اشاعتوں بشمول ”وپریڈ“ اور ”پرولتاری “میں لکھنے کو جاری رکھا۔

پارٹی کے مرکزی ترجمان اخبار ” اسکرا “ پر اپنا قبضہ جما کر اس کے ذریعہ مینشویکوں نے لینن، بالشویکوں اوراِس دوسری کانگریس کے فیصلوں کے خلاف جدوجہد شروع کر دی ۔ لینن کے پاس کوئی باقاعدہ اخبار نہ تھا۔ لہذا اس کا پارٹی پہ کوئی اثر نہیں رہ گیا تھا۔ مانشویکوں (بالخصوص پلیخانوف ) نے اسکرا میںلینن کے کتابچہ ”کیا کیا جائے ؟“ پرحملہ کیا۔ لینن کو ”آٹو کریٹ “کہا گیا جو ” بیوروکریٹک سنٹر لائزیشن “ قائم کرنا چاہتا تھا۔ لینن پارٹی ممبروں کو ”دندانے دار پہیے اور پیچ دار میخ بنانا چاہتا ہے “۔اس نے لینن کو فارملسٹ ، زہریلا، ضدی اور تنگ نظر کہا۔
لینن پر ایک اور سخت حملہ ٹراٹسکی نے کیا جس نے لینن کو ”آمر اور ٹیرراِسٹ کہاجو پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کو ایک پبلک سفیٹی کمیٹی میں بدلنے کی کوشش میں ہے ۔ تاکہ وہ رابسپائرے کا رول پلے کر سکے“۔
ایک فیصلہ کن موڑ 1904کے بہار میں آیا۔فروری سے لینن کے حامیوں کا ایک گروپ مصالحت پر زور دینے لگا ۔جولائی اور اگست تک انہیں سنٹرل کمیٹی پر پوری برتری حاصل ہوگئی۔ اس طرح اس آخری جگہ بھی اس کا اثرختم ہوگیا۔ ساتھ میںبین الاقوامی سوشلسٹ کمیونٹی بھی اس سے الگ ہوگئی۔
وہ بالکل اکیلا ہوگیا۔


لینن نے چٹان کی طرح اس آئی سولیشن کا مقابلہ کیا ۔ لینن کے لیے اُس بحرانی زمانے میں کروپسکایا کا موقف ایک نعمت تھی۔ لینن نے اُن سے بھی قطع تعلق کرلیا۔ کمپر و مائز سے انکار کردیا۔ اور وہ جذبات کو سیاسی اصولوں کی راہ میں آنے نہ دیتا تھا۔ ایسے ایسے لوگوں سے اصولوں پر جدا ہوتا تھا جو اُس کی شاموں کی سیر کے ساتھی ہوتے تھے ، شطرنج کا کھیل ساتھ کھیلتے تھے ، شکار کے ساتھی تھے یا پھر سیاست میں دکھ درد کے لمحات کے ساتھی ہوا کرتے تھے ۔
ستمبر میں تو روز الگر مبرگ بھی تحریری طور پر اُسے ”الٹرا سنٹرل ازم“ اور ” اوور سیئری رجحان سے بھرا“ قرار دے رہی تھی۔ اور یہ کہ اُس کے اصول تحریک کو ترقی دینے کے بجائے ”باندھ“ رہے تھے ۔ اس کی توجہ ”پارٹی کی سرگرمیوں کو زیادہ ثمر دار بنانے سے زیادہ اس پر کنٹرول کرنے “پہ زیادہ تھی۔
اس پہ طرہ یہ کہ کاﺅ تسکی نے لینن کا جواب چھاپنے سے انکار کر دیا۔ لینن بالکل اکیلا ہوگیا۔
اس موقع پر اُن کو کچھ نئے اتحادی ملے ۔ مثلاً فلاسفر اور پروپیگنڈہ کا ماہر بُغدانوف ۔تب انہوں نے دسمبر1904میں جینوا سے اپنا اخبار ”وپریڈ“ یعنی فارورڈ (بلوچی میں ”دیما“) جاری کیا۔ لینن کی ایڈیٹری میں 22دسمبر1901کے اولین شمارے میں لینن کا مضمون چھپا: آٹو کریسی اور پرولتاریہ ۔یہ بالشویکوں کا تنظیمی مرکز بنا۔ ظاہر ہے کروپسکایا ہی اُس کی سیکرٹری تھی ۔ پھروہی کوڈ نام ،وہی نقلی ایڈریس ۔۔ وہ اس لیے بہت طاقتور انقلابی تھی کہ وہ مخالفین پہ شخصی حملے نہیں کرتی تھی۔ وہ ماسوائے ٹراٹسکی کسی کے ساتھ تحریر میں نہیں الجھی۔
اسے اندازہ تھا کہ منشویکوں سے مستقل علیحدگی اب لازمی ہوگئی:” یا تو سچے آ ہنی ڈسپلن سے ہم اُن سب لوگوںکو باہم جوڑ لیں گے جو جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں، اور اِس چھوٹے مگر مضبوط پارٹی سے ”نیو اسکرا“ اور اُس کے بے جوڑ عناصر کی گرتی ہوئی عفریت کو کچل ڈالیں گے۔ یا پھر ہم اپنے رویے سے دکھادیں گے کہ ہم بطور قابلِ توہین فارملسٹوں کے مٹ جانے کے مستحق ہیں“
”ایک قدم آگے دو قدم پیچھے “ کا اختتامی مفہوم یہ ہے : اقتدار کے لیے سٹرگل میں پرولتاریہ کے پاس تنظیم کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہے ۔ بورژوا دنیا میں انار کی والے مقابلے کے قوانین سے غیر متحد ، کپٹل کے لیے جبری مشقت سے تباہ کردہ ، حتمی محرومی ، سفاکانہ جہالت اور ذلت ”نچلی تہوں“ تک لگاتا دھکیلا ہوا پرولتاریہ محض مارکسزم کے اصولوں پر اپنی نظریاتی وحدت کے ذریعے ، اور تنظیمی میٹریل اتحاد سے مضبوط کردہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن سکتا ہے اور وہ یقینا بنے گا“۔

ریفرنسز

1۔ اوبیچکین/انصاری ۔ظ۔ لینن ۔2004 بک ہوم۔ لاہور صفحہ 41
2۔ لیننز پارٹی۔ صفحہ58
3۔ لیننز پارٹی۔ صفحہ60
4۔ لیننز پارٹی ۔صفحہ35
5۔ لیننز پارٹی۔ صفحہ37
6۔SW1۔ صفحہ 398
7۔ لیننز پارٹی۔ صفحہ51
8۔ لیننز پارٹی۔ صفحہ37
9۔ڈیوڈ شب۔صفحہ84

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*