تبصرہ کتاب امید گر

"امید گر” افغانستان کی حریت پسند شاعرہ کبریٰ مظہری کی نظموں پر مشتمل ہے جس کا اردو ترجمہ عابدہ رحمان نے کی ۔ کتاب کے شروع میں پسماندگی کے گناہ کے نام سے ڈاکٹر شاہ محمد مری اپنے مضمون میں شاعرہ کبریٰ مظہری اور پھر عابدہ رحمان کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر برکت شاہ کاکٹر کا لکھا ہوا ہے ۔ اس کتاب میں کبریٰ کے تیس پشتو نظموں کا اردو میں ترجمہ شامل ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاعرہ اور پھر ٹرانسلیٹر دونوں عورت ہیں اور دونوں ہی ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں کہ جہاں عورت کے بولنے پر پابندی ہے، اپنے حق میں آواز بلند کرنے پر باپندی وہ بھی اکیسویں صدی میں…. یعنی کبریٰ افغانستان جبکہ عابدہ رحمان بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ بات بزات خود ایک پیغام ہے کہ اب عورت مزید ظلم نہیں سہ سکتی۔ ضیاء کے کالے قانون کے خلاف آواز بلند کرتی یہ عورتیں آج کھلا پیغام دے رہی ہیں کہ ہم سمو کو آزاد ، سسی کو آزاد اور کبریٰ کو آزاد و خودمختیار دیکھنا چاہتی ہیں۔ انہیں انسانیت کے برابر درجہ دلانے کی بات، وقار و عزت کی بات، ذہنی و جسمانی آزادی کی بات کرتی ہیں ۔

ذرا یہ پڑھ لیں ۔۔۔۔

زہن میں رکھ لو
کہ میں امید نہیں چھوڑوں گی
نہ جدوجہد سے باز رہوں گی
اور لڑتی رہوں گی
ایک حقیقی اصل صبح کےلیے

یہ ایک واضح پیغام ہے کہ عورت اب نہ صرف اپنی اور اپنی ذات کی سوچ رہی بلکہ وہ اب اپنے قوم اپنے زبان اور خونی درندہ سامراج (کیپٹلسٹ ) کو بھی آنکھیں دکھا رہی ہے۔ یہ ہر اس ایجنٹ کو جو چاردیواری کے اندر ہو یا باہر کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کےلیے تیار بیٹھی ہے۔ وہ ضیاء الحقی سوچ کو اس کے منصوبے کو وناش کرنے آئی ہے۔ کہ جس نے ہمارے معاشرے کے آدھے سے زیادہ سماج کو قید کیا۔ اس ظالم نے عورت کی کنٹریبوشن کو صفر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ جب آدھی سے زیادہ سماج کو آ پ کسی بھی معاشرے سے نکال دیں پھر اس معاشرے کی کیا حالت ہو گی یہ ہمارے سامنے ہے ۔ مگر آج عورت ان آہنی پنچروں سے نکل چکی ہے ۔۔۔
کبریٰ کی شکل میں ، بانک کریمہ کی شکل میں ، عابدہ رحمان کی شکل میں۔ اور ہر حواہ کی بیٹی آج عہد کرتی ہے کہ وہ سوسائٹی میں اپنا کرادار ادا کرنے کےلیے تیار ہے۔
یہ کتاب ہر عورت کو حفظ کر لینی چاہئیے ، یہ کتاب اپنے حق کی جنگ لڑنے کی ہمت دیتی ہے ، حوصلہ دیتی ہے خاص کر بلوچستان اور سندھ کے فیوڈل سماج میں پھنسی سمو اور سسی کےلیے تو یہ کتاب کسی صحیفے سے کم نہیں ۔
عابدہ رحمان کی ٹرانسلیشن تو پہلی بار پڑھا لیکن جس انداز میں انہوں نے ٹرانسلیشن کیا وہ یقینا داد کے قابل ہے ، آسان الفاظ واضح پیغام ، پراپر فلوینسی ۔ نثر کی ٹرانسلیشن تو پھر بھی بندہ سیاق و سباق سمجھ کر کرلیتا ہے لیکن شاعری کو ٹرانسلیشن میں ڈھالنا یقیناَ ایک مشکل اور کھٹن کا م تھا۔ ٹرانسلیٹر نے جس خوبصورتی سے اس کو ٹرانسلیٹ کیا کتاب پڑھنے کے بعد ہر کوئی واہ واہ کرنے کےلیے مجبور ہوجائے گا۔
اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔ اگر آپ شال (کوئٹہ) میں ہیں تو انصاری کتاب گھر سے اٹھا لیں ، اگر باہر ہیں تو آئن لان بھی منگواسکتے ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*