پذيرائی

 

وہ زَد آلودگی کا پہر، وہ دن کی آخری کِرنیں اُس اداسی بھرے چھرے پر اپنا عکس چھوڑ جاتی ۔ معمول کے مطابق آج بھی ڈھلتے سورج نے اُسے افسردہ کردیا۔ وہ ہر روز اسی سوال پہ سوچتا اور جواب حاصل کیٸے بغیر ہی گھر کو لوٹتا۔ آج بھی معمول کے مطابق آسماں کا غم زدہ چہرہ دیکھنے آیا- اس کی نظر ایک کمزور جسم پر پڑی –

وہ حساس مزاج سوچنے لگا، لیکن اس سے نظریں ہٹا کے اپنے معمول کو لَوٹا۔ وہ کمزور جسم سَکڑا ہوا بندہ شعر پڑہنے لگا

میں آدمی ہوں کوٸی فرشتا نہیں حضور

آج اپنی ہی ذات سے گھبرا کے پی گیا۔

یہ کلام نہیں تھا کوٸی مقناطیسی کرنٹ تھا جو اسکے دل میں گھر کر گیا۔ اٹھا، اور ہمکلام ہوکے شاعر کے نام کی درخواست کی؛ کیا میں اس شاعر کا نام جان سکتا ہوں؟؟؟

ہوگا کوٸی مجھہ سا دل والا اور  خود شناس۔

کیا آپ بھی شاعری کرتے ہیں؟ میرا مطلب آپ کا ذوق دیکھ کر لگتا ہے آپ بھی شاعری کرتے ہونگے۔

میں شاعری کی توہین کرتاہوں حضور!! اگر میں شاعری کرتا تو کسی بار( bar) میں یا ادبی محفلوں میں ہوتا۔ یوں نہ سڑک پہ سکڑتا۔

لیکن تمام شاعر بارس (bars) میں یا ادبی حلقوں میں نہیں ہوتے۔ کچھہ میرے جیسے تنھاٸی پسند تخلیق کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں-

تو تمہیں کون پڑھ رہا ہوگا ؟ دوستوں کے علاوہ کون تمہیں تخلیقکار مانتا ہوگا؟

ایسے سوالوں پے کبھی  وہ سوچا ہی نہیں ۔ دوستوں کی طرف سے ملی پذیراٸی وہ سب کچھہ سمجھ لیتا ۔ اسکے سوال  نہیں تھے کوٸی تماچے تھے جو اس فقیر نما شخص نے اسکو جگانے کے لیٸے مارے۔اس کا غصہ  تھوڑی دیر کے لیئے ساری سرحدیں پار کرنے کا تھا، لیکن اس کمسن  کی حالت پے ترس کھا کے گفتگو کو بڑھانے لگا۔

میرے بھاٸی تو کیا ہوا ۔  میری زندگی میں میرے دوست ہی میری تمام عمر کا اثاثہ ہیں۔

اسکے اس معصمونہ جواب پہ مسکرا اٹھا ۔ اور کہا؛

”جو دوست تمہیں پڑھتے ہیں ان سے بس اپنی کسی ایک تخلیق کا پوچھنا۔“

اُسکے اِس امتحان پہ ہنس پڑا اور کہا؛

”اتنا وقت کس کو درکار میری تخلیقات کو یاد رکھے، وہ تو بس پڑھتے ہیں اور اپنی معقول رائے سے مجھے آراستہ فرماتے ہیں“

جو  کلمات تھوڑی دیر پہلے میں نے پڑھے، ان اشعار نے تمھارے قدموں کو مجبور کیا اور مجھ سے ہم کلام ہوۓ اُسکے بول کیا تھے؟

میں آدمی۔۔۔ کوٸی فرشتا نہیں حضور

آج اپنی ذات سے گھبرا کے۔۔۔ کچھ اس طرح کے بول تھے شاید۔

ہاں بلکل درست!! اب میں نے آپ کو التجا کرکے نہیں کہا کے میری تخلیق یاد رکھو۔ دل میں اتر گٸی تو اس پہ زور آزماٸی کیسی۔۔۔؟

کیا؟ کیا کہا، یہ تخلیق آپ کی ہے؟؟

میں اِسکے بارے میں کچھہ نہیں کہہ سکتا بھرحال آپکو سمجھانے کے لیٸے اتنا کافی تھا کہ کسی بات کو دل میں اتارنے کے لیٸے کہنا نہیں پڑتا۔۔۔ دل اور روح سے نکلی باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔

میرے دوستوں کو کچھہ تو تحریریں یاد ہوں گی۔

”خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں

ہر اینٹ سمجھتی ہے دیوار مجھ سے ہے“

کیا مطلب میں شاعر نہیں؟ مجھے کوٸی نہیں پڑھتا؟ یا دوست ایسے ہی میرا دل بہلانے کرنے کے لیٸے کہتے ہیں۔ ” کمال کی تخلیق اور لازوال تخلیق جیسے لفظ استعمال کرنے والے دوست مجھے سرسری  پڑھتے ہیں“

میرے دوست!!! غم زدہ نہ ہو۔ میرا مقصد تمھاری دل آزاری کرنا نہیں۔ تمہیں ٹھینس پہچانا نہیں۔ جتنا درد اور  جتنے کرب سے اِس وقت تم گذر رہے ہو۔ ایسے ہی میری روح بھی کانپ اٹھی جب میں نے شعر پڑھا اور تم چھل قدمی کرتے مجھ تک پہنچے، مجھے اپنے لفظوں کی طاقت کے ساتھ دکھ کے احساس نے بھی گھیر لیا۔

میرے دوست!! تمھاری تخلیق نایاب ہے۔ مجھے دو میں اس کو کسی رسالے میں شایع کرواتا ہوں-

نہیں میرے دوست! میں نے کٸی لوگوں کو اپنی تحریریں دی جو انہوں نے اپنے نام کروالی…ان اخبار فروش ، علم فروش اور ادب فروشوں تک میری رسائی  نہ سمجھتے ہوئے  انہوں  نے میری معصومیت اور آرٹ کے منہ پے تماچا مارا ہے۔ اب میں زندگی کی آخری سانسیں سکون سے لینا چاہتا ہوں نہ کے اپنے آرٹ کو بیچ کر۔

میرے دوست اللہ آپکو صحتِ کاملا عطا کرے ایسے لفظ آپ کو زیب نہیں دیتے۔ میں اس ربِ کریم کو حاضر ناظر  کر کہ کہتا ہوں آپ آپنی تخلیق اور نام دیں ۔ میں آپکے نام سے ہی اسکو شایع کرواتا ہوں۔

لیکن ایک وعدہ کرو۔۔۔۔۔۔

جی فرمائیں کیسا وعدہ؟

جب میری موت واقع ہوجاٸے اسکے بعد ہی میرے تمام اشعار چھپاٸی کے لیٸے دینا۔۔۔

کیا وجہ ہے؟ آپ اپنی زندگی میں پذیرائی حاصل نہیں کرنا چاہتے؟

وہ ہنستے رو پڑا اور جواب دیا؛

”ہاہاہاہا – خود شناس اور خوددار لوگوں کو زندگی میں اگر پذیرائی ملتی تو منصور کبھی شبلی کے ہاتھوں پتھر کہ زخم نہ جھیلتا۔ یوسف بھاٸیوں کے ہاتھوں مصر کے بازار میں نہ بکتا۔ “

لیکن حضور آپکے کلام میں وہ صلاحیت ہے کہ لوگ آپ کو محبت کی نگاہ سے پڑھیں۔

تم وہ منصور والے شبلی ہو جو سمجھ رہے ہو لیکن لوگ میری کمسنی کو دیکھ کر میری تخلیق تو شایع ہونے نہیں دیں گے کہیں تمھاری تخلیقوں پے بھی پابندیاں نہ عاٸد ہوجاٸیں۔ کیونکہ یہ زمانہ شبلی سے پتھر لگوا سکتا ہے تو تم سے بھی تخلیقی صلاحیتیں چھین سکتا ہے۔

میرے دوست! اگر آپکی تخلیقیں شایع کروانے سے اس خاکسار پے پابندیاں عاٸد ہوتی ہیں تو سمجھوں گا آرٹ کے لیٸے میری قربانی رائگاں نہیں گٸی۔

کیوں اپنے آپ پر لوگوں کو ہنسانے کے مواقعے فراہم کر رہے ہو۔ ؟

لوگوں کا کام ہے ہنسنا۔ لوگ ہمیشہ بڑی تخلیقوں پے ہنسے ہی ہیں۔

تو ٹھیک ہے اپنے وعدے پر قاٸم رہنا اور میرے گذر جانے کے بعد ہی ان تخلیقوں کو شایع کروانا۔ یہ کہہ کر چلنے لگا اور اپنی شاعری اسکے حوالے کردی۔۔

جیسے ہی نام پر نظر پڑی آنکھوں میں نمی سی آگٸی اشکوں کے ساتھ آسماں بھی لرز اٹھا۔۔۔۔ یہ وہی نام تھا جو تمام ادیبوں میں نشٸی کے تخلص سے مشھور تھا۔۔ اس نے وعدے کے مطابق وہ شایع کرواٸی اور لوگوں میں قہقہے لگ گٸے- ادیبوں نے بیان جاری کیئے اور ریڈیو پہ بھی نشر ہوا کے؛ ”ملک کے نامور شاعر ساغر صدیقی آج ہمارے بیچ نہیں رہے۔ اور پھر نظم؛ میں تلخِ حیات سے گھبرا کے پی گیا-

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*