ا س سال کرونا نے
ہر معیشت کو روند کے رکھ دیا ہے
نہ کوئی ٹھیلے والا اور کہیں بار آباد ہے
مجبوری میں گھر سے نکلنے کی آزادی ہے
جب کوئی کام کار ہی نہیں
یورپ میں لوگ بالکونی میں کھڑے
گٹار بجا رہے ہیں
جیسے ملکوں میں
کیا میڈیا کیا مسجدوں میں خطبے
سب کے سب دھشت کے
کارندے ہیں
”کسی کو مت چھوﺅ
سماجی فاصلہ قائم کرو
ان ساری قدغنوںکے باوجود
ہر شام سیخوں پر کباب لگ رہے ہیں
ہر صبح پوریاں اور پراٹھے بن رہے ہیں
ہر روز گھروں اور ہسپتالوں سے
سینکڑوں جنازے اٹھ رہے ہیں
شادیاں ، سالگرہ ، نیاز یں
بدستور جاری ہیں۔
درمیانے طبقے نے گاڑیاں بیچ کر
سائیکل چلانا شروع کردی ہے
مہنگائی بھی کرونا کی طرح پھیل رہی ہے
ساری دنیا میں لوگوں کو
گھروں سے کام کرنے کا کہا جاتا ہے ۔
یہ وہ ملک ہے جہاں بجلی اور دیگر مراعات حاصل ہیں۔
ہم جیسے ملکوں کے لوگ ماسک پہن کر
اور ریلواٹیوں کی طرح ہاتھ میں لنچ لیے جاتے ہیں
بچے گھروں میں رہ کر کھانے کے لیے
کچھ نہ کچھ مانگتے رہتے ہیں۔
سب اند وختہ گڑ، چاول ، آٹا
تھوڑا تھوڑا استعمال کر کے بھی
خالی ڈبوں کو دیکھ کر
کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے ہیں
ماچس کی تیلی بھی نہیں مانگ سکتے ہیں
صحنوں میں روتے بچوں کو کیسے بہلائیں
گلی میں مرمرے والا اور بندر کے تماشے
والا بھی نہیں آتا ہے
میاں بیوی ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے
گھر کا حساب کرتے کرتے
ایک دوسرے سے لڑتے ہیں
کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے
بوڑھے ماں باپ کو گھر میں بند رہ کر
ڈیمنشیا ہوگیا ہے
وہ چیختے ہوئے کچھ کہتے ہیں
سمجھ میں نہیں آتا
میڈیا کو سن کر خفقان ہوتا ہے
سارے ملکوں پر ذلتوں کی گرد
چھائی ہوئی ہے
مگر اِسی سال میں
دنیا کی سب سے مہنگی گاڑی
پاکستان میں خریدی جاتی ہے
اور بڑھاپے کی شادی میں
ایک کلو سونا لے کر دولہا آتا ہے
اِدھر خاندان ٹو ٹ رہے ہیں
جنازہ اٹھانے اور دفنانے کے لیے
چار بندے نہیں ملتے ہیں
وصال کے نغمے اور برھا کے گیت
ملہار کی جگہ گھروں میں نوحے
دیوار سے دیوار ملی کھڑی ہے
مگر ہمسائے سے بھی بات
کر تے ہوئے ڈرتے ہیں
کہ کہیں کوئی کچھ مانگ نہ لے
دنیا بھر میں لمبی لائن میں دفنائے لوگ
جہاز سے دیکھو تو چین کی دیوار
کی طرح نظر آتے ہیں
اولڈ پیپل ہوم والے تو
چپ چھاپ مر گئے ہیں
خود کشیاںبڑھ رہی ہیں
جنازے بھی بڑھ رہے ہیں
مگر آپا دھاپی کے زمانے عروج پر ہیں
مغربی ملکوں میں ریڈ کراس والے
قطار میں کھڑے لوگوں میں راشن بانٹ رہے ہیں
غریب ملکوں کی روایت
کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے ہیں
مغرب میں تو، لوگ ڈسٹ بن سے کھانا
اٹھا کر کھالیتے ہیں
مشرقی روایت میں سراونچا کر کے
ملنا ہی روایت ہے ، تہذیب ہے۔
کرونا بڑھ رہا ہے
انسانیت مر رہی ہے
سال گزر چکا ہے !
[sharethis-inline-buttons]