نیل پالش

وہ کون تھی کہاں سے آئی تھی۔ یہ راز کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر اس عورت کا تیزاب سے مسخ شدہ چہرہ، اس امر کا گواہ تھا کہ تھی وہ بد کردار اور بے وفا بھی، جبھی تو اپنی مردانگی جتاتے ہوئے کسی مرد نے اُس کا حسن اور نسوانیت چھینی۔ اس کے خوفناک چہرے پہ نظر ڈلتے ہی لوگ اپنے گناو¿ں کی معافی مانگتے نہ تھکتے۔
اس بدکردار اور بد شکل عورت کی آنکھوں کی جگہ ایک ڈھیلا خالی جبکہ دوسرے کا پپوٹا مسخ شدہ تھا۔ اور ہونٹوں کی جگہ بتیسی نمایاں تھی۔ مسوڑھے بھی تیزاب کی حدت سے پگھل چکے تھے۔ یہ تو طے تھا کہ وہ عورت بد چلن ہی ہے۔ کنواری اور ان چھوئی ہوتی تو چہرہ حسین ہوتا۔ اور کسی پاکیزہ گھرانے کی زینت ہوتی۔
لیکن یہ اس کی کراہت آمیز ڈراو¿نی شکل ہی تھی جو کہ ایک ڈھال بنی ۔اس کو ، دو چہروں والی مکمل خلق کے سوالات سے بچانے میں معاون ثابت ہوئی۔ تیزاب بنانے والے نے اس ایمانداری سے تیزاب بنایا تھا کہ اس عورت کی جانب بچے ایک نظر دیکھتے ہی ماں سے لپٹ جائیں اور مرد ،استغفراللہ پڑھتے نظریں جھکا کر ایمان کو تقویت دیتے خاموشی سے آخرت سے پناہ مانگتے گزر جائیں۔ جبکہ عورتیں آئینہ دیکھ کر صبر و شکر کے کلمات ادا کرتی پھریں۔
اسے اس مسخ شدہ چہرے کے صلے "بدکردار عورت” کا لقب عنایت ہوا اوراس،لقب کے صدقے، نیکو کاروں کو ثواب کمانے کا موقع میسر ہوا۔
اس بدکردار عورت کا ٹھکانہ، اس بستی کے نالے کے کنارے کسی فقیر کی چھوڑی ہوئی ٹوٹی پھوٹی جھگی تھی۔
وہ منہ کو ڈھانپے اپنے ہاتھوں اور ایک ادھوری آنکھ کی بینائی سے راستہ ٹٹولتی ،لاٹھی کھٹکھٹاتی گھر گھر جا کر کھانا مانگتی۔ نیک بیبیاں، رزق کی برکت کے وسیلے کی چاہ میں بچا کھچا باسی کھانا،اس کو گندے لفافوں میں دے دیتیں اور مرد، اس سے نگاہیں چرائے، صراط مستقیم کی ڈوری تھامے، سیدھا اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی علاقے کے لوگوں کے اطوار میں نیکی اور پاکبازی نمایاں ہونے لگیں کہ ایک چلتا پھرتا گناہ کا استعارہ ان کے علاقے میں اب اپنے نمایاں وجود کے ساتھ مقیم تھا۔
گلی کے کتے بلیوں کے علاوہ کسی کو اس کی ہستی میں دلچسپی نہ تھی۔ جن کو وہ باسی کھانے سے بچی کھچی ہڈیاں اور روٹی کے ٹکڑے ڈالتی۔
کبھی کبھی رات کے اندھیرے میں اس کی جھگی سے رونے اور کرلانے کی آوازیں سن کر لوگ استغفار اور دعائیہ کلمات شروع کردیتے اور خدا سے ان گناہوں سے تائب رہنے کی مناجات کرتے کہ جن کی سزا ملنے پہ وہ ماتم کناں ہوتی۔ تیزاب سے جھلسی۔بدکار عورت۔
کچھ عرصے بعد اسی محلے کے ایک شریف اور اعلی درجے کے گھرانے میں شادی کی رسم تھی۔ سنت ولیمہ کے بعد رات گئے تک آئٹم نمبرز پہ ناچ گانا چلتا رہا۔ شریفوں کا علاقہ تھا سو تمام خواتین حجلہ عروسی میں مقید دلہن کی ساس کو،رات اس کے بستر پہ بچھائے گئے سفید تولیے پہ سرخ دھبے پائے جانے پر مبارکباد دے رہی تھیں کہ آج کے بدچلن معاشرے میں ایک باکرہ بہو کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف تھی۔
جبکہ گھر کے باہر لگی قناتوں میں نوبیاہتا دلہا اپنے دانتوں میں پانچ ہزار کا نوٹ دبائے،اپنے سامنے تھرکنے والے ہیجڑوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ وہ اسکے لبوں سے وہ پانچ ہزار کا نوٹ چھین کر دکھائیں. دلہے کی اس شرارت پہ تمام حاضرین لوٹ پوٹ کر داد دے رہے تھے۔
فجر کی اذان سن کر سب نے احتراماّ خاموشی اختیار کرلی۔ محفل برخاست،ہوئی اور دوسرے شہر سے آئے میوزیکل بینڈ نے اپنا ساز وسامان لپیٹنا شروع کردیا۔ کہ اچانک بین کی آواز،آئی اور فضا میں کرلاتے آنسو شبنم کی جگہ برسنے لگے۔ جب دوسرے علاقوں سے آئے لوگوں نے ڈرتے ہوئے اس ڈاین کی چنگھاڑ کے متعلق استفسار کیا کہ جس کی آہ و بکا سے رات کے حسین لمحے فجر کی سفیدی شرمندگی محسوس کر کے ایک دہشتناک ماحول کو جنم دے رہے تھے۔ تب تفصیل جان کر "نتھو” نامی ہیجڑہ کہ جو اپنی ہیرے کی نتھلی کی وجہ سے مشہور تھا چونک اٹھا۔
نتھو کی ٹیم نے گاڑی میں سامان لادا تو نتھو دوپٹے سے اپنے پھیلتے کاجل کو صاف کرتے بولا۔ "میں صبح کی بس سے آجاو¿ں گی۔ بہت تھکن ہے۔ برابر کے پنڈ میں کچھ کام ہے۔ سوچا نمٹا لوں”۔ گاڑی اس کو وہیں کھڑا چھوڑ کے نکل پڑی. نمازی مسجد اور باقی افراد بستروں کی جانب لپکے۔
جبکہ نتھو نے اپنا تھیلا کاندھے پہ ڈالا اور اس کے قدم تیزی سے اس کٹی کی جانب اٹھنے لگے جہاں پر ماتمی آہ و فغاں جاری تھی۔ نتھو ہیجڑہ نالے کے کنارے بنی اس جھگی میں اندر داخل ہوا تو ایک عورت، دھاڑیں مار مار کر آنسو بہاتی ،سینہ کوبی کر رہی تھی۔ تیزاب پھینکنے والے نے اس مہارت سے اس پہ تیزاب پھینکا تھا کہ وہ نسوانیت کھو بیٹھی تھی اور یہی اسکی عافیت اور تحفظ کا سبب بھی بن گیا۔
گندے نالے سے تعفن و بدبو کے بھبھوکے نسیم سحر کا اس ظالمانہ طور بلادکار کرنے لگے کہ نسیم سحر نے اپنا رخ موڑ لیا۔
نتھو نے جھگی میں داخل ہوتے ہی اس بدکردار عورت کو بھینچ کر بانہوں میں سمیٹ لیا۔
وہ عورت اندھیرے اور روشنائی کے تصادم میں خود کو بانہوں کے حصار میں پا کر پہلے تو خوفزدہ ہوئی۔ اور پھر اپنے ادھڑے مسوڑھے پہ بوسے کا لمس پاکر خاموش ہوگئی۔ اس نے آنکھیں میچ لیں۔ سستے عطر اور مردانہ پسینے کی آمیزش کی بو کے سامنے اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور اس نے مکمل خودسپردگی کے عالم میں اپنا وجود نتھو کے حوالے کردیا۔
دوئی کی گرمی نے صدیوں سے بٹی ہوئی بدکردار عورت کو یکتا کیا۔ قربت کے لمحوں کا نشہ ٹوٹا تو وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔ جسم کا وہ حصہ جہاں کبھی اس کی چھاتیاں تھیں لاشعوری طور پر اس نے اپنے اس سپاٹ سینے کو میلی چادر سے ڈھانپ لیا۔ اپنی ادھوری آنکھ سے اس نے دیکھا، اسکے سامنے نتھ ڈالے ایک مرد کھڑا تھا۔ سر تا پا برہنہ مردجس کی ناک میں پڑی نتھ کا ہیرا چمک رہا تھا ۔
وہ نتھ پہنے مرد ، بول اٹھا۔ "بے فکر رہ’ میں نے "نس بندی ” کروا رکھی ہے۔ تجھے کچھ نہ ہوگا۔ نتھو نے بدکار عورت کا سر تا پا جائزہ لیا اور بولا۔ "ارے۔۔تیرے پیر کتنے حسین ہیں۔ لا ان پر نیل پالش لگاتی ہوں۔” اور اپنے سامان سے لال نیل پالش نکال کر اس بدکردار عورت کے غلیظ پیروں کے لمبے ناخنوں پہ نیل پالش لگانا شروع کردی۔
اس کام سے فارغ ہوکر وہیں پڑی بالٹی کے پانی سے نتھو نے نہانا شروع کردیا اور اس عورت کو بھی بانہوں میں بھینچ کر نہلاتا رہا۔ نہانے سے فارغ ہوکر نتھو نے کپڑے بدلے. اور خاموشی سے باہر کی جانب اپنی راہ لی۔ نتھ پہنے مرد کے پہلے قدم کے ساتھ ہی قدرت نے بھی انگڑائی لی اور وہ اپنی نتھ میں بہت کچھ سمیٹ کر ساتھ لے گیا۔
بدکردار عورت نے اب ہر جمعہ کو مسجد کے باہر بیٹھ کر بھیک مانگنا شروع کردیا۔ جیسے ہی پیسے جمع ہوتے وہ تمام جمع شدہ پونجی سے ایک قیمتی لال رنگ کی نیل پالش خرید لاتی اور موم بتی کی روشنی میں گنگناتی اور تہہ در تہہ اپنے لمبے ناخنوں پہ لگانا شروع کردیتی جن کی وہ اب دھو کر باقاعدہ حفاظت کرنے لگی تھی۔اپنے ناخنوں پہ تہہ در تہہ نیل پالش،لگاتی جاتی اور گنگناتی جاتی۔
علاقہ مکین جو رات کو،اس بدکردار کی آہ و فغاں سے سو نہیں پاتے تھے۔ رات کی خاموشی اب ان کو کھانے کو دوڑتی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*