گم شدہ گاﺅں کا باشندہ

جاتے ہوئے دسمبر کی خون جما د ینے والی سرد رات تھی۔ ہر چیز کو دھند نے یوں لپیٹ رکھا تھا کہ زندگی کی رمق اپنی اپنی پناہ گاہوں میں دُبکی پڑی تھی۔ گہری خاموشی کا راج تھا۔ سنّاٹا گلی گلی سسکاریاں لے رہا تھا۔ ماحول میں بس ہوا کی آواز تھی۔ ہجر کی ماری سنسناتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کی یہ آواز ا ک ہوک کی طرح افسردہ و آزردہ تھی جسے کوئی گلے لگانے کو تیار نہ تھا۔
رات کا دوسرا پہر اُترا تو اس ٹھنڈے ٹھار منظر میں ایک اَن دیکھا خوف بھی شامل ہو گیا۔ ایسے میں دروازے پر زور دار دستک ہوئی جس سے دروازے کے ہی نہیں دل کے کواڑ بھی دہل کر رہ گئے۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھا اور دروازے کی طرف دوڑا، کواڑ مسلسل پیٹے جا رہے تھے۔ میں نے خوف سے لرزتے ہوئے پوچھا کون؟ دروازہ کھولو ضروری بات کرنی ہے۔ بہت دور سے تمہیں کھوجتا ہوا آیاہوں۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی درازہ کھول دیا۔ میرے سامنے چیتھڑوں میں لپٹا ایک ٹھٹھرتا ہوا بوڑھا کھڑا تھا جس کے کھنڈرات بے رحم وقت کی کہانی کہہ رہے تھے۔ دروازہ کھلتے ہی اس بوڑھے نے بغیر کسی تکلف کے بیٹھک کا رُخ کیا اور ایک کرسی پر سمٹ کر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنی حیرتوں اور خوف کو سمیٹتے ہوئے بوڑھے کے چہرے کو بغور دیکھا، پہچاننے کی کوشش کی۔ اپنے ماضی حال میں اسے ڈھونڈا مگر یہ اجنبی بوڑھا بالکل ہی سمجھ نہ آیا۔ میں نے ایک جُھرجھری لی، یوں لگا میرا ایک دیوانے سے واسطہ پڑ گیاہے۔ دل میں خود سے کہا خدا خیر کرے۔ اپنے حوصلوں کو جمع کرکے پوچھا بڑے میاں آپ کون ہیں؟ میں پہچان نہیں پایا ہوں۔ ہت ترے کی تو نے بھی مجھ سے وہی سوال کر دیا جس کا مجھے یہاں ہر جگہ سامنا ہے۔ ہر کوئی مجھے ”کون“ کے خنجر سے کریدتا ہے۔ کوئی بھی میرے زخم نہیں سیتا۔ اس غیر متوقع جواب پر میری الجھن میں ایک او رالجھن بڑھ گئی اور میں خاموش ہو کر ایک طرف بیٹھ رہا۔ بحث بے کار اور تکرار بے معنی سی محسوس ہوئی۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بوڑھا اجنبی گویا ہوا۔ تم لکھاری ہو، کہانیاں لکھتے ہو، میری کہانی لکھو، زندگی کی کہانی، سچی کہانی۔ اس کے لہجے میں درخواست کم اور حکم زیادہ تھا…. لیکن اس کی بات سے میرا ایک خوف دور ہو گیا تھا کہ یہ پاگل نہیں ہے۔ یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہانی لکھوانے کا…. وقت دیکھو، موسم کی شدت کا اندازہ کرو…. میں نے ادیبانہ بے نیازی سے کہا۔ میں سب جانتا ہوں۔ میں کیا کروں میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ کہانی میرے اندر الاﺅ کی طرح جل رہی ہے اس آگ کو صرف تم محسوس کر سکتے ہو۔ میں اس الاﺅ میں جل جاﺅں گا تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ کہانی بھی نہیں۔
میں نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ اپنی آمادگی اور ناراضگی دونوں کو ہی ایسے چھپا لیا جیسے بستی کو دھند نے چھپا رکھا تھا۔
اجنبی بوڑھا بنا تمہید و تکلف تیزی سے اپنی کہانی سنانے لگا۔ وہ اتنا جلدی جلدی بول رہا تھا کہ اس کی سانس گفتگو کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ میں صرف ہمہ تن گوش ہونے کا تاثر دے رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کو اس کی بھی چنداں پرواہ نہیں تھی۔ وہ کہہ رہا تھا یہ ”کون“ اظہار ہے، اظہار، میرا گاﺅں گم ہو گیا ہے۔ اس کا نام سکھ پور تھا۔ اس گاﺅں میں میری دو بیگھے زمین تھی۔ ایک چھوٹاسا مگر گھر تھا۔ گاﺅں کا نام یونہی سکھ پور نہیں تھا۔ یہاں سکھ اور شانتی موجود بھی تھی۔ میں جوان ہوا تو میرے اندر ہوس بھی میرے ساتھ جوان ہو گئی جس نے مجھے پچھاڑنا شروع کر دیا اور میں شکست پہ شکست کھاتا چلا گیا۔ ہاں تو میں گاﺅں کی بات کر رہا تھا۔ اس گاﺅں میں پیپل، بڑ، کیکر، شیشم، نیم،پھلاہی اور اس طرح کی بے شمار انواع و اقسام کے درخت تھے جن پر رنگین پرندوں کے بسیرے تھے۔ گاﺅں کے چوک میں کنواں تھا جس پر مٹیاریں پانی بھرنے آتی تھیں۔ رنگ رنگ کے اینڈوے، پراندے، جھلمل جھلمل لباس، ستواں جوان جسم، پازیبوں کی جھنکار، چوڑیوں کی چھنکار ایک سماں باندھ دیتی تھی۔ چوپال میں شام ہوتے ہی بڑے بوڑھوں کے ڈیرے جمتے تھے۔ دانش و دانائی کی باتیں خوشبو بکھیرتی تھیں۔ رات اُترتی تو فضا رومانوی گیتوں سے اور سورماﺅں کی داستانوں سے سج جاتی۔ صبح ہوتی تو پرندوں کی چھنکار اور بیلوں کی گھنٹیوں سے سماں بندھ جاتا۔
” یہ بوڑھا اظہار بڑا رومانویت پرست ہے“۔میں نے محظوظ ہوتے ہوئے خود سے کہا لیکن اس کی بات میں کسی مداخلت کو مناسب نہیں جانا۔ اس نے نے گاﺅں کا جو منظر بتایا وہ مجھے محسوس ہونے لگا تھا۔ بوڑھے اظہار نے ایک لمبا ہوکا بھرا۔
ہاں تو میں نے اپنی حرص و ہوس کی جوانی بتائی تھی۔ اس نے میرے پاﺅں اکھاڑ دئیے تھے۔ میں اس کے جُل میں آ کر زمین بیج کر گھر والوں کو اللہ کے سپرد کرکے دور دیسوں کو ہجرت کر گیا۔ میں گاﺅں سے چلا تو گیا لیکن میرے اندر سے سکھ پور نہیں گیا۔ میں گاﺅں سے ہجرت کر گیا تھا لیکن میرا اندر ہجرت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اسی دُبدا میں وقت کی آندھی مجھے تنکے کی طرح اڑائے پھری۔ میں نے دیس دیس کی خاک پھانکی، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا پر ہر رات سکھ پور میں ہی گزاری۔ وہ کبھی مجھ سے جدا ہی نہیں ہوا۔ میں نے اپنی شبانہ روز محنت سے اور اپنی ایڑا گیڑی اور چالاکی سے ڈھیروں دولت کمائی۔ ولایت میں شادی کی، میں نے میم سے شادی رچائی تھی۔ ہمارے تین بچے ہوئے۔ عمر ڈھلنے کا اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور سب کچھ میری مٹھی سے ریت کی طرح نکل گیا۔ میں پھر سے خالی ہاتھ ہو گیا۔ اتنا خالی ہاتھ کہ حرص و ہوس سے بھی خالی۔ مجھے اس اکلاپے میں سکھ پور جگراتے دینے لگا۔ مجھے سکھ پور کی گلیاں، درخت، پرندے چوپال آوازیں دینے لگے۔ مجھے درختوں پر لکھے نام مالتی، شمیم اور نسرین کے ساتھ مل کر باندھے وعدوں کے رنگین دھاگے بلانے لگے۔ میرے پاس ان یادوں کے سرمائے کے سوا کچھ بھی نہیں بچا تھا سو میں اپنی یادوں کا سرمایہ اٹھائے جسے میں بے بسی یا یوں کہہ لو کہ بے حسی میں چھوڑ گیا تھا اپنے قدموں کے نشانوں کو کھوجتا ہوا واپس چلا آیا۔ میں تو انہی پیروں مڑا تھا پھر بھی نہ جانے کیوں میری منزل میرا گاﺅں میرا سکھ پور کھو گیا جو میرے اندر ہے لیکن منظر سے غائب ہے۔ اب نہ وہ درخت ہیں، نہ وہ پرندے ہیں، نہ مٹیاریں، نہ کنواں، نہ چوپال، نہ وہ صبح، نہ شام، نہ جاگتی رات سب کچھ گم ہو گیاہے۔ سکھ پور کیا گم ہوا میرا سکھ گم ہو گیا ہے۔ جہاں سے میں ہجرت پہ چلا تھا وہاں ایک اجنبی گاﺅں ہے اپنے نام سے پہچان تک ہر حوالے سے اجنبی۔ یہاں ہر طرف سفیدے کے اونچے اونچے درخت ہیں جن پر کوّے، چیلیں اور گدھ رہتے ہیں۔ ان سفیدوں پر کسی مٹیار کی پینگھ نہیں ہے نہ چاہنے والوں کے رنگین وعدوں بھرے دھاگے ہیں۔ ان کی ہواﺅں میں ایک اور آوازاور شور ہے چیل اور گدھ کی آواز جیسا۔ مسافر اِن سفیدوں کی چھاﺅں میں بیٹھ نہیں سکتا کہ یہ سفیدے کالے آنسو روتے ہیں اور مسافر کے لباس کو داغ داغ کر دیتے ہیں۔ ان کی لکڑی سے بس آگ لگانے والی ماچس ہی بنتی ہے یوں ہر طر ف آگ ہی آگ ہو گئی ہے۔ یہ سفیدے زمین کا سارا سُکھ چاٹ گئے ہیں۔ باہر سے آئے حملہ آوروں کی طرح انہوں نے سکھ پور کے ہر سُکھ کو ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔
بوڑھے اظہار نے ایک ٹھنڈی آہ بھری جو دسمبر کی اس رات سے بھی زیادہ سرد تھی۔” میں نے یہاں آ کر سکھ پور کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر میرا گاﺅں دنیا کے اس میلے میں کسی نادان بچے کی طرح گم ہو گیاہے۔ بھٹک کر نہ جانے کہاں چلا گیاہے۔ پہلے پہل تو میں نے سوچا کہ ایک گاﺅں ڈھونڈنا کون سا مشکل کام ہے میں یہاں کی اسمبلیوں میں، عدالتوں میں، صحافتی اداروں میں، یونیورسٹیوں میں منادی کرواﺅں گا اور میرا گاﺅں مجھے مل جائے گا۔ حیف صد حیف افسوس ہائے افسوس میں نے ہر ہر جگہ دہائی دی، سر پیٹا لیکن یہ دیکھ کر میری روح کانپ گئی کہ ہر جگہ بلند قامت پسند کردار سفیدے ہی سفیدے ہیں۔ میں بھلا ان سفیدوں سے کیسے کہوں کہ میرا گاﺅں ڈھونڈ دیں، میرا سُکھ مجھے واپس کر دیں۔ سفیدوں کے اس راج میں تو بس کوّوں، چیلوں اور گِدھوں کی موجیں ہیں۔ میں اس دکھ میں مر رہا ہوں کہ یہاں کوئی اور بوٹی پنپ ہی نہیں سکتی۔ کوئی سکھ کی کرن نمو نہیں پا سکتی“۔
میں ہمہ تن گوش بوڑھے اظہار کے کرب کو محسوس کر رہا تھا۔ اس کہانی میں اتنا گم ہوا کہ اس بات کا بھی احساس نہ رہا کہ بیٹھک میں کچھ دیر سے خاموشی ہے۔ سرد اور اجنبی خاموشی۔ مو¿ذن کی آواز کے ساتھ اپنی ذات میں واپس لوٹا تو دیکھا کہ بیٹھک میں کوئی بوڑھا اظہار نہیں ہے معاً بعد گدھ کی بھوکی اور بے زار آواز سماعت کو چیرتی ہوئی دل کو ایک دھکا دے گئی۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ دل میں ایک دیوار گِر گئی ہے یہ وہی دیوار تھی جس پر سُکھ پور کا نوشتہ تحریر تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*