ہفت روزہ عوامی جمہوریت

17جون1972کے عوامی جمہوریت میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی( منعقدہ 11جون) کی ایک قرار داد پر پورا جہازی صفحہ وقف کیا گیا ۔ یہ قرار داد بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے حق میں تھی ۔ اُس زمانے میں جس معاملے پر کشت وخون والا مباحثہ چل رہا تھا، وہ آج کی نسل کو مذاق لگتا ہے ۔ دراصل جب بنگال اپنی آزادی حاصل کرچکا تو پاکستان میں اُسے تسلیم نہ کرنے کی زبردست تحریک چلائی گئی ۔ ”بنگلہ دیش نامنظور “کا ڈرامہ پورے سرکاری میڈیا ، یونیورسٹیوں اور پارلیمنٹ میں چل رہا تھا۔ ہفت روزہ عوامی جمہوریت اور اُس کی سیاسی پارٹی اس سب کچھ کو رائٹسٹ وقت گزاری قرار دے رہی تھی ۔ اور بنگلہ دیش کو ایک حقیقت کے بطور تسلیم کرنے پہ کمپین چلا رہی تھی۔ دراصل یہ معاملہ اُس وقت رائٹ اور لیفٹ کے بیچ فکری جھگڑے کی صورت اختیار کرچکاتھا۔ رائٹ وِنگ (جس کا نمائندہ ریاست رہی ہے ) بنگلہ دیش مخالفت کی آڑ میں بھارت اور سوویت یونین کی دشمنی کا محاذ سنبھالے ہوئے تھی۔ بنگلہ دیش اُس کا بہانہ بن گیا تھا ۔ عوامی جمہوریت صرف بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کرتا تھا بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ ”پڑوسی ممالک سے دوستی“ کی بات بھی کرتا تھا۔
اِس شمارے میں ایک اہم مضمون جارجی دیمتروف کی سالگرہ کے عنوان پر موجود ہے ۔ دیمتروف اس لحاظ سے عالمی سوشلسٹ تحریک میں ایک الگ اور نمایاں مقام رکھتا ہے کہ اس نے ”فاشزم “ نامی ایک خطرناک نظام سے ٹکر لی تھی۔ فاشزم پہلے بھی دوسری صورتوں میں موجود تھا جن پہ مارکس اور لینن نے کافی لکھا تھا ۔ مگر دوسری عالمی جنگ کے آس پاس فاشزم نے ایک جنگی صورت اختیار کی ۔ دیمتروف اس کے خلاف نظریاتی اور سیاسی لڑاکا بن کر ابھرا۔ اس کے علاوہ مارکسزم اور صحافت کے موضوع پر بھی وہ ایک اتھارٹی تھا ۔
اس شمارے میں حسب معمول پولٹیکل اکانومی کے موضوع پہ جاری نظریاتی مضامین کی اگلی قسط موجود تھی ۔ اس کے علاوہ اِس میں پاکستان کے بجٹ پر ایک تنقیدی مضمون بھی موجود ہے ۔ اسی طرح ایک آرٹیکل بعنوان”اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظامہائے پیداوار کے نتائج کا فرق ” لکھا گیا۔ اسی شمارے میں بلوچستان میں مینگل حکومت کے اُس اقدام کو بہت سراہا گیا جس کے تحت ساڑھے بارہ ایکڑ خوشکابہ اراضی تک کے مالکان پر لگا ہوا مالیہ اور مویشیوں کی چرائی اور مزری کے پتوں پر لگے ہوئے ٹیکسوں کو ختم کر دیا گیا۔
اگلا شمارہ 8جون 1972کا ہے ۔ اُس وقت پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کے درمیان شملہ معاہدہ ہوچکا تھا ۔ایک روشن فکر اخبار کی حیثیت سے عوامی جمہوریت نے بڑھ چڑھ کے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا۔ اُس نے اپنے سرورق پہ ایک چوکھٹالگایا اور اُس کے اندر اُس معاہدے کا متن چھاپ دیا۔ اور اس معاہدے کو “ امنِ عالم کی فتح“ قرار دے کر دوجہازی صفحات پر مشتمل ایک بھرپور مضمون شائع کیا۔ یہ وہ زمانہ بھی ہے جب حکومتِ سندھ نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دیا تھا۔ اور اس کے خلاف اردو بولنے والے علاقوں اور ملک بھر کے رجعتی عناصر کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔ یوں سندھی اردو کو تنازعہ بنا کر گویا بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا۔ عوامی جمہوریت نے اپنے اداریے میں اسی معاملے کو مخاطب کیا۔ اِس اداریہ کا اختتامی پیراگراف یوں ہے : ”سندھی کو صوبہِ سندھ کی سرکاری زبان بنانے سے اردو کی حیثیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ جہاں تک ذریعہ تعلیم کا تعلق ہے ، مادری زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دے کر سکولوں اور کالجوں میں سندھی اور اردو دونوں زبانوں کی تعلیم لازمی بنا کر اس مسئلے کو بہ آسانی حل کیا جاسکتا ہے “ ۔
اگلے شمارے میں بھی اسی مسئلے کو زیر بحث لایا گیا ۔ واضح ہو کہ اس بیچ سندھ میں لسانی معاملے میں فسادات ہوچکے تھے اور خون بھی بہا تھا۔ اخبار نے اپنے بیک ٹائٹل پر ”سندھی لسانی بل“ کا عنوان لگایا۔ باشعور کر دینے والا ایک پس منظر دیا اور یہ کہہ کر اِس پورے بل کو من وعن شائع کردیا۔ ”۔۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس بل کی مخالفت کرنے والے عوام کی 99فیصد اکثریت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اس بل میں کیا لکھا گیا ہے جسے سندھ اسمبلی نے منظور کیا ہے“۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*