غزل

 

ہجرِمْدام، بحرِہمیشہ سے پْھوٹ کر
اِس دشتِ نامراد سے لپٹا ہے ٹْوٹ کر

جانے اْداسیوں کو سمیٹے کدھر گئی
بادِشمال، غم کے پرِستاں کو لْوٹ کر

میں لاوْجودیت میں گِری ہوں بطورِ حرف
اپنے کوی کے مہرباں ہاتھوں سے چْھوٹ کر

اے تا ابد غریقِ سفر روشنی کی رَو
ہم بیکَساں سے عہدِوفا جْھوٹ مْوٹ کر

رستے میں اک صدا مِلی، آہنگِ صد زماں
چْپ ہو گئی جو رْوٹھنے پہ میرے رْوٹھ کر

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*