اُمید ۔۔۔ (نادِژدا کروپسکایا)

 

کروپسکایا کا مستقبل کا جیون ساتھی دور دراز سمارا ؔکے علاقے میں رہتا تھا۔ اس سنجیدہ انقلابی نے تیئیس سال کی عمر میں (1893 میں)سمارا چھوڑا، اور سینٹ پیٹرز برگ چلا آیا۔اور، یہی وہ عمر اور یہی وہ سفر تھا جس میں اُس نے ایک نئی حیات جینی تھی،دنیا بھر کے غریبوں کے لیے خوشگواری کی پہلی اینٹ رکھنی تھی، اور اسی عمر میں اس نے جاگیردار وں سرمایہ داروں کے لیے سرگردانی کی پوری ڈیڑھ صدی نازل کرنی تھی۔

پیٹرسبرگ اُس زمانے میں دارالحکومت ہونے کے ساتھ روس کی مزدور تحریک کا ایک بہت ہی اہم مرکز بھی تھا۔ وہاں کئی خفیہ سرکلز تھے جن کے شرکاء مارکسزم کا مطالعہ کرتے تھے، اور مزدوروں میں مارکس اور اینگلز کی تعلیمات کا پروپیگنڈا کرتے تھے۔

ایسے ہی ایک حلقے میں لینن بھی آکر شامل ہو گیا۔کروپسکایا والے سٹڈی سرکل والوں کوپتہ چلا کہ وولگا کے علاقے سے ایک پڑھا لکھا نوجوان مارکسسٹ آگیا ہے۔ ایک بہت ہی پرانے ممبر کرژیژا نوفسکی کے بقول:”اور۔۔ایک غیر معمولی شخص نمو دار ہوا ہے جو دوسروں سے زیادہ اُس ہتھیار کی مہلک طاقت کو اہمیت دیتا ہے جس کو مارکس کی عقل و دانش نے ڈھالا ہے“۔

کروپسکایا کے بقول اِ س ”عالم“ مارکسسٹ کے بارے میں، اُس کے آتے ہی اصلی نقلی کہانیاں سنائی جانے لگیں۔اُس کی مبالغہ آمیز اوصاف اور خصلتیں ایک دوسرے کو بتائی جانے لگیں۔ اُن سنی سنائی باتوں میں ایک یہ تھی:”۔۔۔ لینن صرف سنجیدہ کتابوں کی تلاش میں رہتا ہے اور اس نے زندگی بھر ایک بھی ناول نہیں پڑھا“۔مگر نادِژدااس روح افزا شخص کے بارے میں اس تاثر کی نفی کرتی ہے: ”مگر بعد میں سائبریا جلاوطنی میں مجھے معلوم ہوا، کہ یہ سب محض افسانہ تھا۔لینن نہ صرف ٹرگنیف، ٹالسٹائی، چرنی شیوسکی کو پڑھتا ہے بلکہ وہ ان ادیبوں کو بار بار پڑھتا ہے۔ اور اُسے عمومی انداز میں کلاسیکس کے بارے میں اچھی معلومات ہیں اور وہ اِس کی توصیف کرتا ہے۔ اُس کے پاس ایک البم تھا جس میں عزیزوں اور پرانے سیاسی جلاوطنوں کے ساتھ ساتھ زولا، ہرزن اور چرنی شیوسکی کے کئی فوٹو لگے تھے“۔ (10)۔

وہ ”عالم“کروپسکایا سے ایک سال چھوٹا تھا۔نادِژدا پہلی بار ”والگا کے علاقے سے آئے اس عالم مارکسسٹ“ سے فروری 1894میں مارکسسٹ سرکل میں ملی(11)۔نادِژداجوکہ لمبی، زرد،اور سنگین و سنجیدہ سکول ٹیچر تھی۔ اُس کے بال اس کے سر کے پیچھے بندھے تھے، وہ درمیان میں مانگ نکالتی تھی۔ وہ سادہ سی،محنتی خاتون تھی۔ اس کی عادتیں، غیر شہزادیانہ تھیں۔ اس کے اندر ایک محنت کش طبقے کی طرفداری والا وقار تھا۔

اسی زمانے میں لینن نے ایک مضمون لکھا: ”نام نہاد مارکیٹوں کا معاملہ“۔ اِس میں اُس نے روس میں کپٹلزم کی ترقی پہ مارکسزم اور نارودِنک نظریات کا تقابل کیا۔یہ مضمون اِس سرکل میں پڑھا گیا۔

آئیے ذرا چیزوں کا پس منظر دیکھتے ہوئے اِس مضمون پہ بات کرتے ہیں۔۔ روس یورپ میں واحد ملک تھا جو رے نے ساں کی بغلگیری سے محروم رہا تھا۔ اُسے سولہویں صدی کے ”ریفارمیشن“ نے بھی نہیں چُوما تھا۔ سترھویں صدی کے آخری حصے اور اٹھارویں صدی میں پیٹر ِ اعظم نے یورپی کلچر اور ٹکنالوجی کی طرف کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کی تھی۔مگرنپولین کی شکل میں یورپ روس میں ترقی دینے اور انقلابی وصنعتی اثرات ڈالنے کے بجائے توسیع پسند حملہ آور کے بطور نمودار ہوا۔ روس نے اُسے شکست دے دی۔ اور یوں وہ فرنچ بورژوا کپٹلسٹ انقلاب کے اثرات سے بھی محروم رہا۔ یوں روس یورپ میں اپنی پسماندگی کے بطور ہی جانا جاتا تھا۔

انیسویں صدی کے آخری عشرے میں روس کی صنعت میں ابھار پیدا ہوا۔ نئی فیکٹریاں اور کارخانے نمو دار ہوئے، مزدور طبقہ تیزی سے بڑھا اور قطعی عزم کے ساتھ سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کرنے لگا۔ پرولتاریہ کو اپنا تاریخی رول پورا کرنے کے لئے مزدوروں کی ایک خود مختار انقلابی پارٹی کی ضرورت تھی۔مگر وہاں، مارکس ازم کو مستحکم بنانے اور مزدور پارٹی قائم کرنے میں اعتدال پرست ”نرودنیک“حائل تھے۔

مارکیٹوں پر لینن کے طویل مسودے کے بارے میں کروپسکایا نے لکھا:“ اس ساری اپروچ میں ایک تازہ دم مارکسسٹ محسوس ہوتا تھا جو صورتحال کی اُسی ٹھوس انداز میں گرفت کرسکتا ہے جیسی کہ وہ ہے۔۔۔ میں اس نو آمدہ کو مزید قریب سے جاننا چاہتی تھی، اس کے خیالات کو مزید قریب سے جاننا چاہتی تھی“۔(12)۔

اِس نئے ساتھی کا قد چھوٹا، گٹھیلا ، اور اس کے کندھوں پر بڑا ساسرتھا۔ سر پر بال نہیں تھے اور پیشانی باہر کو نکلی ہوئی تھی۔اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، کھڑی ناک، بڑا ذہن، بھاری ٹھوڑی اور مخصوص تراشیدہ داڑھی تھی۔ اس نے ڈھیلا ڈھالا اور بوسیدہ لباس زیبِ تن کررکھا تھا۔ اس کی پتلون اس کے سائز سے بڑی دکھائی دے رہی تھی۔

اُسی شام کو جب وہ سرکل سے فارغ ہوئے تو پھر یہی سکالر اُن کا موضوع ِ سخن بن گیا۔ وہیں نادِژدا کو لینن کے بڑے بھائی کی صدمہ بھری موت کا معلوم ہوا۔

منابع بتاتے ہیں کہ لینن پیٹرسبرگ میں مارکسسٹوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ انٹلیجنشیا سے کنی کتراتا تھا اورترجیحی طور پر سرگرم انقلابی ایجی ٹیٹروں سے ملتا تھا۔ وہ مزدوروں سے ملنے کی کوشش کرتا۔اس سلسلے میں کروپسکایا نے اس کی مدد کی۔

کروپسکایا مزدوروں کو پڑھاتی تھی۔ بعد میں لینن نے بھی مزدوروں کو مارکسزم کے لیکچر دینے شروع کردیے۔

۔1894ء کے موسم گرما میں لینن نے ایک کتاب ”عوام کے دوست، کیسے ہیں اور سوشل ڈیمو کریٹوں کے خلاف کیونکر جدوجہد کرتے ہیں؟“ لکھی۔(13)۔ یہ کتاب بھی نرودنِکوں کے خلاف تھی۔

وکیل لینن 31اگست 1893 میں سینٹ پیٹرسبرگ آیا ہی اس لیے تھا کہ نارودِنکوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم ہوسکے۔

سنگت جاوید اختر نے یاد دلایا کہ نارودنک لفظ ” نرود “ سے نکلا ہے جس کے روسی زبان میں معنی ہیں، عوام۔نرودنک لوگ اپنی کتابوں اور رسالوں میں عوام کے دوست ہونے کا اعلان کرتے تھے مگر ساتھ میں مارکس ازم پر زوروں کے حملے کرتے تھے۔

ناردونک یہ سمجھتے تھے کہ سماج میں سب سے بڑی انقلابی طاقت مزدوروں کی نہیں بلکہ کسانوں کی ہے۔

نارودنکؔ مارچ1881کو بادشاہ الیگز ؔنڈر دوم کو ایک بم سے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ چند افراد کو ہلاک کر کے نہ تو بادشاہی ختم ہوسکتی تھی اور نہ زمینداری۔ چنانچہ مقتول بادشاہ کی جگہ پہ ایک دوسرا شخص بادشاہ ہوگیا اور خود کوالیگزنڈر سوم کانام دیا۔اُس کے دور میں تو مزدوروں اور کسانوں کی حالت اور بھی ابتر ہوگئی۔

ہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اُن نارودنِکوں کے خلاف کروپسکایا اور لینن نے تو بہت بعد میں جنگ کی۔ اُن کا اصل اور ابتدائی سامنا تو ایک اور بڑے سیاستدان اور نظریہ ساز نے کیاتھا۔اس شخص کانام جارجی پلیخانوف 1856)۔۔۔(1918 تھا۔

روسی مارکسزم کا اولین نظریہ دان پلیخا نوف،لینن سے تیرہ برس بڑا تھا۔ اس نے 1883 میں جلاوطنی کے دوران نارودزم کے خلاف ”مزدوروں کی نجات“ نامی تنظیم جنیوا میں بنالی تھی۔

اس گروپ نے روس میں سائنسی سوشلزم کے نظریات پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا، ملک میں معاشی صورتحال کا مارکسی تجزیہ پیش کیا، اور نارودِ زم کا مقابلہ کیا (14)۔

نارودنکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پلیخانوف نے بے شمار کتابیں لکھیں۔اس کے مجموعہ تصانیف پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہیں۔

اس کی تعلیمات کا نچوڑ یہ تھاکہ حقیقت متحرک مَیٹر کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ مَیٹرحرکت کے سائنسی قوانین کے تابع ہے۔سماج ماحول اور رائے کے باہمی عمل کا نام ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا آراء کے ذریعے چلائی جاتی ہے لیکن آراء بھی تو کبھی ساکت و جامد نہیں رہیں۔

نارودنک نظریہ کے خلاف لکھی گئی اپنی کتابوں میں پلیخانوف نے یہ دکھایا کہ روس سرمایہ داری کے راستہ پر چل کھڑا ہواہے اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ انقلابیوں کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کپٹلزم کی ترقی روک دیں، اور یہ تو وہ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ اُن کا کام یہ تھا کہ وہ اس زبردست انقلابی طاقت کی مدد حاصل کریں جو سرمایہ داری کی ترقی کی بنا پر پیدا ہوئی تھی، یعنی مزدور طبقہ کی۔ ان کو چاہیے کہ مزدورکے طبقاتی احساس کو بڑھائیں، اُس کی تنظیم کریں اور اُس کو اپنی مزدور پارٹی بنانے میں مدددیں۔

پلیخانوف کسان طبقے کی کمزوریوں کو جانتا تھا اس لیے اس نے کہا کہ پرولتاریہ اور کسان سیاسی طورپر دو متضاد قوتیں ہیں۔ کیونکہ پرولتاریہ کا تاریخی کردار انقلابی ہے جبکہ کسانوں کا رجعت پسندانہ۔کسان ہزاروں سالہ پرانی شہنشاہیت کی حمایت کرتے ہیں جبکہ مزدوروں نے مغربی یورپ کے بادشاہی معاشرے کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔

پلیخانوف نے 1893 میں ہی یہ اعلان کر دیاتھا کہ روس میں انقلابی تحریک صرف مزدور تحریک کے طور سے کامیاب ہو گی۔

پلیخانوف نے نارودنکوں ؔ کو کہاکہ باوجود اس کے کہ روس میں کسانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور مزدوروں کی تعداد نسبتاً کم تھی لیکن پھر بھی انقلابیوں کو مزدور طبقہ اور اُس کی ترقی ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ مزدور بحیثیت ایک طبقہ کے روز بروز بڑھ رہا تھا اور اس کے سیاسی شعور میں ترقی ہورہی تھی۔ بڑے پیمانے کی صنعتوں میں کام کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کی وجہ سے مزدوروں کی تنظیم کرنا زیادہ آسانی سے ممکن تھا۔ اس کے علاوہ پرولتاری حیثیت کی وجہ سے ان کا طبقہ سب سے زیادہ انقلابی طبقہ تھا کیونکہ اُن کے پاس اُن کی غلامی کے سواا ور کیا تھا جو انقلاب اُن سے چھین لیتا؟۔

کسانوں کا طبقہ تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجودایسا طبقہ ہے جو پسماندہ ترین معاشی نظام سے وابستہ ہے اور اس لیے اس کا مستقبل زیادہ اُمید افزا نہیں ہوسکتا۔

اس کے علاوہ چونکہ کسان دیہاتوں میں بکھرے ہوتے ہیں اس لیے اُن کی تنظیم کاری مزدوروں کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔ اور پھرچھوٹی چھوٹی زمینوں کے مالک ہونے کی وجہ سے وہ مزدوروں کے مقابلہ میں انقلابی تحریک میں شرکت کرنے پر مشکل سے آمادہ ہوتے ہیں۔

پلیخانوف نے نارودنکوں ؔ کی تیسری بڑی غلطی بھی ظاہر کردی۔ نارودنک یہ سمجھتے تھے کہ سماجی ارتقا کی بنیاد ہیروؤں اور ممتاز افراد کے خیالات پر ہے،عوام کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔پلیخانوف نے دکھایا کہ سماجی ارتقاء ممتاز افراد اور ہیروؤں کے خیالات پر نہیں بلکہ سماج کے مادی حالات کے ارتقا پر مبنی ہے۔خیالات انسانوں کے سماجی اور معاشی حالات کا تعین نہیں کرتے بلکہ انسانوں کے سماجی اور معاشی حالات انسانوں کے خیالات کی تشکیل کرتے ہیں۔ ممتاز اور ہیروافراد کے خیالات اگر سماج کے معاشی ارتقاء کے خلاف ہوں، یعنی سماج کے اہم ترین طبقہ کے متضاد ہوں تو وہ گمنامی کے گڑھے میں پڑ جائیں گے۔ اور اگر ان کے خیالات وجذبات سماج کی معاشی ترقی کی ضرورتوں کی اور اس کے اہم ترین طبقہ کے مفاد کی ترجمانی کرتے ہوں تونمایاں افراد کے نام بھی روشن ہوجاتے ہیں۔

پلیخانوف نے بتایا کہ ”عظیم شخص“سماجی ترقی میں اُس وقت ہی اثر انداز ہو سکا ہے کہ جب معاشرتی تنظیم اس کی اجازت دے۔

پلیخانوف نے کہا کہ حادثات بھی اسباب وعلل رکھتے ہیں۔ اس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پیرو اور امریکہ کے اصل باشندوں کے لیے یورپی باشندوں کانمو دارہوجانا ایک حادثہ ہی تھا۔ کیونکہ یہ واقعات اُن ممالک کی اپنی سماجی ترقی سے ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے۔لیکن مغربی یورپ کا بحری مہموں اور نئے ممالک کی دریافت کا شوق کوئی حادثہ نہیں تھا۔ نہ ہی میکسیکو اور امریکہ میں یورپین فتح کوئی حادثہ تھی بلکہ وہ دو عوامل کا نتیجہ تھی۔ اولاً فاتح قوموں کی معاشی حیثیت،دوم مفتوح قوموں کی معاشی حیثیت۔

ہم اس کے خیالات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ مارکسزم دیہات کی بہ نسبت شہر کواور کسان کی بہ نسبت فیکٹری کو اہمیت دینے والی سائنس ہے۔

یوں پلیخانوف نے سٹڈی سرکلوں کو رواج دیا تھا۔ اور ہوتے ہوتے اب روس میں بالعموم اور پیٹرزبرگ میں بالخصوص ایسے کئی سرکل موجود تھے۔ لینن سینٹ پیٹرزبرگ جیسے صنعتی مرکز میں موجود رہنا چاہتا تھا جہاں پرولتاریہ کی بڑی تعداد موجود ہو۔

سرکل میں ”مارکیٹ معاملہ“ والے مقالے میں لینن نارودنکوں پہ سنگین تنقید کر گیا۔ یعنی روس میں کپٹلزم کے مستقبل کے بارے میں اس نے بہت میچور انداز میں روس میں موجود معاشی حالات کا مارکسی تجزیہ کیا۔ جب مارکیٹ نہ ہوں گے تو کپٹلزم نہ ہوگا۔ اور کپٹلزم نہ ہوگا تو کسان ہی انقلابی قوت ہوں گے اور دیہات انقلاب کا مرکز ہوگا۔ لینن نے اِسی مرکزپہ تابڑ توڑ حملے کیے۔ اس کے بقول کپٹلزم نے حتی کہ خود زراعت کے سیکٹر پہ بھی اثرات ڈالے۔ کسانوں کے اپنے اندر بورژوازی اور پرولتاریہ پیدا ہورہا تھا۔ بڑے بڑے کپٹلسٹ فارم چھوٹے مالک کسانوں کو کھائے جارہے تھے۔ اس کا فقرہ تھا: روسی معاشی زندگی میں کپٹلزم سب سے اہم پس منظر ہے۔ (15)۔

لینن کے مضمون نے نارودنکوں کے خلاف مارکسسٹوں کو ایک زبردست نظریاتی ہتھیار تھما دیا۔ اور یہ مضمون پیٹرز برگ کے باہر بھی بڑے پیمانے پر پڑھا جانے لگا۔

جواب میں نارودنکوں نے سیدھا مارکسزم پہ حملے کرنے شروع کیے۔ چونکہ وہ زار بادشاہ کے خلاف رہے اور کسانوں کی محتاجی اور غلامی کی مخالفت کرتے چلے آئے تھے۔ اس لیے وہ عوام بالخصوص نچلے طبقے میں بہت مقبول تھے۔ ان کا لیڈر کوئی عام آدمی نہ تھا بلکہ مشہور و معروف و باوقار و معتبر نظریہ دان میخائلووسکی تھا۔ وہ اُس زمانے میں ”انسانوں کے دماغوں کا حکمران“ کا لقب پا چکا تھا۔ اس لیے مارکسزم پہ اُن کے تابڑ توڑ حملے محنت کشوں کو متاثر کر رہے تھے۔

چنانچہ نارودنکوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ یہی کام اہم ترین بن چکا تھا۔ اور لینن نے ساری توجہ یہیں دیے رکھی۔

اسی زمانے میں اس نے اپنی سٹوڈنٹ لائف کے مضامین اور لیکچرز کو کتابی صورت دی:”عوام دوست کون ہیں اور وہ کس طرح سوشل ڈیموکریٹوں سے لڑتے ہیں“۔ یہ بھی نارودنکوں اور اُن کے فکری راہنماؤں کے خلا ف تھی۔ اس نے اُن کے معاشی تجزیہ سے لے کر اُن کے سیاسی نظریے اور سیاسی عمل، داؤ پیچ اور ان کی حکمت عملی پر تخلیقی مارکسسٹ نکتہ نظر سے تنقید کی۔ اس نے نارودنکوں کی سڑاند کو خوب بیان کیا۔ اس کی سب سے بڑی تشویش یہ تھی کہ نارودنک لوگ ملک کے محنت کش لوگوں کی نجات کی جدوجہد میں مزدور طبقے کے کردار کو گھٹا کر پیش کر رہے تھے۔ وہ لوگ تاریخ کے ارتقا کے قوانین کو نہیں مانتے تھے۔ اور اُن کا خیال تھا کہ مفکروں یا اخلاقی طور پر ترقی یافتہ افراد کی خواہشوں کے ذریعے تاریخ کی روانی کو موڑا جاسکتا ہے۔ یعنی انفرادی ”ہیرو“ تاریخ بناتے ہیں۔ وہ عوام کو ”ہجوم“ قرار دیتے تھے جو صرف”ہیروؤں“ کے پیچھے چلنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔

”عوام کے دوست کیا ہیں“ میں لینن مزدور طبقے کا ترجمان بن چکا تھا۔ اس نے سیاسی و سماجی نجات کی تحریک میں مزدور طبقے کے لیے مارکسسٹ نظریے کو سب سے اہم قرار دیا۔ اس نے کہا کہ مارکسزم سے آشنا اور عوام میں مارکسزم پھیلانے والے انسان کے علاوہ پرولتاریہ کا لیڈر کوئی نہیں بن سکتا۔ اُس نے تین اہم فرائض گنوائے: مطالعہ، پروپیگنڈہ، اور تنظیم۔ اس نے نظریاتی اور عملی سرگرمی کو الگ کرنے کی کوشش کا مذاق اڑایا۔

یہ کتاب چار چیزوں کے گرد گھومتی ہے: 1۔روسی مزدور طبقہ انقلابی جدوجہد میں لیڈر طبقہ ہے،

۔2۔ یہ بادشاہت اور کپٹلزم کے خلاف مستقل مزاجی سے لڑنے والا طبقہ ہے۔

۔3۔ اسی طبقے نے سوشلسٹ انقلاب میں فتح مند ہونا ہے۔

۔4۔ مزدور طبقے کی اس جدوجہد میں مارکسزم اس کی راہنما، اور کسان اُس کے اتحادی ہیں۔

اس فارمولا کو جلد ہی بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہوگئی اور اس سے اِدھر اُدھر ہونے والوں کے خلاف ہر جگہ جدوجہد شروع ہوگئی۔

لینن مزدوروں کو ان پڑھ نہیں سمجھتا تھا۔ نشست کے پہلے حصے میں وہ وہاں مارکس کا کپٹل پڑھتا اور اس کی تشریح کرتا تھا۔ اور وقت کااگلا نصف مزدوروں کے اُن سوالات پر محیط ہوتا جو اُن کے کام اور مزدوری کے حالات سے متعلق تھے۔ وہ انہیں بتاتا تھا کہ اُن کی زندگی کس طرح سماج کے پورے ڈھانچے کے ساتھ مربوط ہے۔ سرکلوں میں تھیوری اورپریکٹس کو اکٹھا کرنا لینن کی خاص خصوصیت تھی۔

اپنے ساتھیوں کے اندر لینن کا وقار بہت بلند تھا۔ سادگی، ہنر مندی، زندگی کے لیے محبت اُس 23سالہ نوجوان میں حیرت انگیز طور پر باہم ملے ہوئے تھے۔ اس کے اندر وقار تھا، جامع علم تھا، ناترس منطقی استقلال تھا، واضح نتائج نکالنے کا جوہر تھا اور وہ چیزوں کی درست ڈیفی نیشن میں یکتاتھا۔

اُس زمانے میں مزدوروں کے سٹڈی سرکل چلانا خطرات سے خالی نہ تھا۔ پولیس کی نگرانی کا سامنا ہوتا تھا۔مگر ”ہمارے سارے گروپ میں لینن سازشی کاموں میں سب سے ماہر تھا۔ اُسے پولیس جاسوسوں کو چکمہ دینا خوب آتا تھا۔ اس نے ہمیں نظر نہ آنے والی روشنائی(اِنک) سے کتابوں پر خفیہ تحریریں لکھنا سکھایا، خفیہ اشارے سکھائے اور ساتھیوں کے فرضی یعنی نقلی نام رکھنے کے سارے طرز سوچے(16)۔

خفیہ گروپ کے ممبروں نے حفاظت اور رازداری کے لیے اپنے نقلی نام رکھے ہوتے تھے۔ چونکہ نادِژدا کو ”تھائرائڈ“ کی بیماری تھی اس لیے اُس کی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ چنانچہ اسی مناسبت سے اس کا نقلی نام ”مینو گا“ تھا۔ اس نام کا لفظی مطلب ہے: تنبو مچھلی۔ ایک انڈر گراؤنڈ گروپ کا نقلی نام ”بندر“تھا، اور ایک دوسرے کا ”مرغا“(17)۔

جیسے کہ ذکر ہوا،پہلی ملاقات کے بعد وہ اکثر وبیشتر کروپسکایا کے گھر چلا جاتا۔ وہ مارکسزم، سیاسی پارٹی اور انقلاب کے بارے میں باتیں کرتے۔ اور آئندہ کی خفیہ سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں لائحہِ عمل طے کرتے۔ بقول کروپسکایا”ہم نہ ختم ہونے والی گفتگو کیا کرتے“۔(18)۔

روابط پسندیدگی کا روپ اختیار کرتے چلے گئے۔ طبقاتی سماج کے خلاف بغاوت کی ابلتی آنکھیں محبت کی باحجاب دزدیدگی کو بھی جگہ دینی لگیں۔ پیاسے دو دلوں کی فضا پہ بادل سایہ فگن ہونے لگے تھے۔ سُچا انقلاب محبت کی کمبی نیشن سے مزید اجلا ہونے لگا۔ لینن کے کروپسکایا کے گھر آنے جانے کے وقفے کم ہونے لگے۔ اِن وِزِٹس کا دورانیہ بڑھنے لگا۔ اور وہاں گفتگو قوسِ قزح کے رنگوں میں نہانے لگی۔ کیوپِڈ اور سائیکی روس کی سرزمین پہ حیاتِ نو پانے لینڈ کرچکے تھے۔ تؤکلی مست کی بے چینیاں پیٹرزبرگ میں ڈُپلیکیٹ ہورہی تھیں۔

لینن ہر اتوار کو محبت کے اِس ٹمپل جانے لگا۔ اسے یہ گھر پریمستان سا گداز لگنے لگا تھا۔ دل کا ماتھا ٹیکنے کو اس گھر سے اچھی جگہ کہاں دستیاب ہونی تھی۔ اب صدیاں محض ایک پل تھیں،اور ایک پل صدیوں پہ محیط ہونے کے معجزے ہونے لگے۔ محبت کی پھوار نے اپنے لیے مناسب جگہ دیکھ لی تھی۔محبت کے فرشتے نے ان کے دلوں کے غموں اور دکھوں کے درودیوار مسمار کردیے۔

ایک اتوار کو جب وہ کروپسکایا کے پاس نہیں گیا توبرسوں بعد اب کہیں جاکرسائباں دیدہ دل کی مالکن پریشان ہوگئی۔ وہ اِدھر اُدھر پوچھ بھی نہیں سکتی تھی اس لیے کہ خفیہ سرگرمیوں کے اصول اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ مگر چونکہ اُسے کسی گرفتاری کی اطلاع بھی نہیں دی گئی تھی تو اُسے یقین ہوگیا کہ کوئی اور واقعہ ہوا ہوگا۔ ایک ہی امکان ہوسکتا تھا۔ ”وہ کہیں بیمار نہ ہو“۔

بلوچی کلاسیکل شاعری میں جب بیورغ ؔکی محبوبہ صذو ؔبیمار پڑ جاتی ہے، تو اُس نے کہا تھا:

”میں نے اپنی گائیوں کے رَم سے ساٹھ گائیاں پیر کے نام ذبح کرنے کی منت مانی بھیڑوں کے ریوڑ سے سرخ کا نوں والے مینڈھے۔

اپنی سیاہ گھوڑی۔۔ اپنی تلوار۔۔اور کٹار مع اُس کے خراسانی میان کے

میں اپنی ایک لونڈی آزاد کردوں گا

اگر میری محبوبہ تندرست ہوجائے “

ایسے موقع پر ہونٹ سوکھ جاتے ہیں۔ چہرے پہ ہوائیاں اڑتی ہیں اور دل کی دھڑکن گننے کی حد کراس کر جاتی ہے۔ وہ بے اوسانی اور وحشت میں اُس گھر کی تنگ سیڑھیاں چڑھنے لگی جہاں لینن نے ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا۔

مکان مالکن نے دوروازہ کھولا: ”ہاں وہ بہت بیمار ہے۔ اسے نمونیا ہوگیا“۔ (17)

لینن اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس کے چہرے پہ رونق آئی ہوگی، اس کی بیماری کا ایک حصہ تو اُسی وقت بھاگ گیا ہوگا۔

اُس نے ہرفارغ لمحہ اس بیمار کے پاس گزارا۔ دوا دارو بھی ہو اور کروپسکایا جیسی تھیراپسٹ بھی موجود ہو تو بیمار نے تندرست ہی توہونا تھا۔لینن بالآخر ٹھیک ہوگیا۔

برباد بچپن اِن دونوں ”لَو برڈز“ کے بیچ کا من تھی۔ایک جیسے نظریات کے سبب ایک کا بھائی پھانسی چڑھ چکا تھا تو دوسرے کا باپ عرش سے فرش پر پٹخا جاچکا تھا۔ اس کے علاوہ وہ دونوں خود بھی ارفع نظریہ کے وائرس کی زد میں تھے۔ اور یوں دونوں کا سماجی پس منظر ایک طرح کا تھا۔ کروپسکایا ایک ایسی انقلابی تھی جس کا انقلابی کیریئر بہت کٹھن مگر بہت عمدہ تھا۔ اس نے انقلاب کے لئے سخت مشقت کی تھی اور بہت دکھ جھیلے تھے۔سیاسی پراسیس میں پستے پستے وہ ایک مدد کرنے والی، پرسکون اور متوازن عورت بن چکی تھی۔ وہ بہت ذہین تھی، اور بہت محنتی تھی۔

مشترکہ کاز نے لینن اور کروپسکایا کے بیچ ناقابل ِ تصور گہری دوستی پیدا کردی۔ 1894 کی سردیوں تک کروپسکایا اورلینن ایک دوسرے کو اچھا خاصا جاننے لگے تھے۔(20)۔

اُن میں ایک باوقار، سنجیدہ اور گہری پسندیدگی پیدا ہوچکی تھی۔ البتہ دکھوں، قربانیوں اور جدوجہد کی سنگینی نے انہیں ہر طرح کے جذبات کی نمائش والی شخصیات رہنے ہی نہ دیا تھا۔ ”آپ وہ چُپ ہے اور اُس کا سراپا بولے“ کے مصداق اُن کے تعلقات حیران کن طور پر دھیمے تھے۔ گوکہ محبت صد سالہ کو بھی ٹین ایجر بنا لیتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آتش وخون کے دریا پار کرنے والے ”نو“جوان بھی اظہار ِ محبت میں چلتن جیسی سنجیدگی سنگینی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

وہ دونوں انقلاب کے سوچ کے تسلط میں تھے۔ اسی لیے اُن دونوں کے باہمی خطوط میں شخصی سطح پہ بہت کم جذبات کا اظہار ملتا ہے (21) ۔ لگتا ہے ان دونوں انقلابیوں نے اپنی ذاتی باتوں کو بیان کرنا عاجزی کے خلاف قرار دے رکھا ہو۔ اس لیے اِن دونوں کی محبت اور اس سے وابستہ معاملات کے بارے میں معلومات بالکل ہی کم ہیں۔

میں جینی اور مارکس کی محبت کو دیکھتا ہوں تو وہاں تو مجھے مست توکلی جیسا اظہار ملتا ہے۔ مگر یہاں اِن دونوں عشاق کے منہ سے گہری ٹھنڈی سانس تک سنائی نہیں دیتی۔ حالانکہ اُن کی دیگر تحریریں پڑھیں تو وہاں اُن کے لفظ جاندار، اورسانس لیتے ہوئے ہوتے ہیں۔۔ مگر یہاں محبت کے معاملے میں ضبط اس قدر کہ دل کی موجوں کا سطح پہ پتہ ہی نہ چلے!۔

حوالہ جات

۔10۔کروپسکایا۔ memoirs۔ صفحہ24

۔11۔پوپسی لوف، اور دیگر۔ لینن، اے بایوگرافی۔1995۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ20

۔12۔کروپسکایا۔ memoirs۔ صفحہ 1

۔13۔شب،ڈیوڈ۔ اے بایوگرافی آف لینن۔ پنگوئن بکس، لندن۔۔صفحہ 229

۔14۔ وولکو گونوف۔لائف اینڈ لی گے سی۔۔۔صفحہ 28۔

۔15۔لینن انگلش مجموعہ تصانیف، جلد نمبر1۔صفحہ 105۔

۔16۔کروپسکایا۔ memoirs۔صفحہ 8

۔17۔ مِک نیل۔ برائیڈآف دی ریوولیوشن۔ صفحہ 44۔

۔18۔کروپسکایا۔ memoirs۔صفحہ 7

۔19۔ لُد میلا۔۔اے لائف ڈی ووٹڈ۔۔۔ صفحہ29

۔20۔کروپسکایا۔ memoirs۔صفحہ 5

۔21۔پیئرسن، میخائل.دہ سِیلڈ ٹرین۔ صفحہ11

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*