غلام حسین مسوری بگٹی

 

پہلے گورے کی سرکاری خط و کتابت کے ورق الٹتے ہیں اور
A year on the Punjab Frontier
کے صفحات پلٹتے ہیں.
سندھو دریا کے مغرب اور کوہ سلیمان کے دامن میں ضلع راجن پور کے گورچانی قبیلے کی وفاداریوں کے اوراق کی سیاہی بتاتی ہے.
"گورچانی سردار، کھوسہ قبیلے کے سردار کوڑا خان کی طرح کارہائے نمایاں انجام دینے کے لئے آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے”

چنانچہ سکھ راج کا تعمیر کردہ موجودہ قلعہ ہڑند فتح کرنے کے لئے لیفٹیننٹ راف ینگ کی قیادت میں مسلح لشکر بھیجا گیا تو گورچانی سردار غلام حیدر خان بھی اس میں شامل ہو گیا….

لیکن کچھ عرصہ بعد جنرل کورٹ لینڈ نے گورچانی تمندار غلام حیدر خان کی تمام جاگیر ضبط کر لی. الزام یہ تھا کہ تمہارے قبیلے کے لوگ لوٹ مار کرنے سے باز نہیں آتے…
جس طرح ایٹمی جمہوریہ کے شریفین سے کہا گیا….
پھر بھی گورچانی قبیلہ، شریفین کی طرح سرکار کی وفاداری کا دم بھرتا رہا.

اسی وفاداری اور غلامی داری میں سلیمان کی چوٹیوں سے ایک باغی برآمد ہوا….
غلام حسین مسوری بگٹی… جس نے بدیشی آقاؤں کے ساتھ ساتھ اُن کے مقامی سہولت کاروں کا بھی ناک میں دم کر رکھا تھا.
غلام حسین مسوری کے مسلسل حملوں سے تنگ آکر انگریز ایڈمنسٹریٹر سر رابرٹ گروسمین نے وائسرائے کو لکھا کہ اگر اس باغی کی سرکوبی نہ کی گئی تو یہ علاقے ہم سے چِھن جائیں گے.
لہزا وائسرائے لارڈ لارنس نے غلام حسین مسوری کی گرفتاری پر دو لاکھ نقد اور ایک ہزار ایکڑ جاگیر کا انعام مقرر کیا.
1867 میں غلام حسین مسوری نے جب قلعہ ہڑند پر حملہ کیا تو کل 27 گوروں کے ساتھ تین سو گورچانی اپنے سردار غلام حیدر کی قیادت میں لڑے…
غلام حسین خان کو دھوکے سے پکڑا گیا اور سر گورے کے سامنے لا رکھا اور…. پھر گورچانی سردار نے جاگیر بھی واپس پائی انعام بھی لیا اور سالانہ وظیفہ بھی بڑھا دیا گیا.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*