شکریہ ڈاکٹر شاہ محمد مری 🙏🌺
ادی سعدیہ شکیل لاشاری۔
آج سے تقریبا چھ سات ماہ پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی بابو عبدالکریم شورش ،
،ایک ایسا بلوچ رہنما جسے وقت نے گمنامی کی قبر میں دفنانا چاہا مگر راقم نے اپنے قلم کے زور سے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندگی بخش دی اور ثابت کردیا کہ بابو عبدالکریم شورش تم نے تو یاسین شریف پر دستخط کر کے خود کو تولنگ و لاش کر کے قبر کے حوالے کیا مگر ۔حلف لفظ اور حرف پر آنچ نہیں آنے دی تو میں بھی تمیں تاریخ میں مرنے نہ دونگا کیوں کہ وطن کی خاطر جان دینے ولے کبھی نہیں مرتے ۔۔مجھے وہ کتاب پڑھتے ہوے ایسا لگتا جیسے ہر جگہ میں بابو کے ساتھ ہوں ۔کمال کی تحریر غضب کی منظر کشی جب مصنف کا نام پڑھا شاہ محمد مری ۔
دل میں خیال سا گزرا کہ کیا خوب لکھا ہے ۔کیا کمال رائٹر ہے
پچھلے دنوں آرٹس کونسل پاکستان کراچی میں عالمی ادبی کانفرنس میں ہماری تنظیم کو حصہ لینے کا موقع ملا تاریخ میں پہلی بار آرٹ کونسل میں ادبی کانفرنس میں سرائیکی زبان کا مزاکرہ کیا گیا جس میں سرائیکی عوامی تریمت تحریک نے بھرپور حصہ لیا ۔
وہاں ہمارے سیشن کے بعد بلوچی سیشن تھا جب نام پکارا گیا ۔۔شاہ محمد مری تو
ہم جو اپنی نشستوں سے روانہ ہو رہے تھے قدم رک گئے ۔اور جب ان کی گفتگو سنی انہوں نے بہت خوبصورتی سے بلوچ قوم کی ترجمانی کی اور گل بی بی کا نام اس احترم سے لیا کہ ہمارے بھی دل احترم سے لبریز ہوگئے اور دل میں یہ خواہش جاگی کہ کاش ہم ان کو اور بھی سن سکیں مگر سیشن کا وقت ختم ہو گیا ۔جب مری صاحب نیچے تشریف لائے تو ادا نزیر لغاری صاحب بہت تپاک سے ملے اور ہم سب سے ان کا تعارف کروایا ۔ہم نے بھی خوب سلفیاں لیں مگر ایک خلش رہی کے کاش کچھ بات ہو سکتی ۔۔کہتے ہیں کبھی کوئی ایک گھڑی قبولیت کی بھی ہوتی ہے ۔
ادبی کانفرنس کے چھٹے اور آخری روز پھر سے آرٹس کونسل اپنی فیملی کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا
وہاں کچھ دیر بعد ادا نزیر لغاری بھی تشریف لے آئے مجھے دیکھ کر خوش ہوے کچھ دیر ساتھ بیٹھ کر کہا کہ پتہ نہیں مری صاحب آج بھی ہیں یا نہیں ۔اس وقت ہم باہر بیھٹے تھے اور اندر آڈیٹوریم میں سہیل احمد کا سیشن چل رہا تھا ان کی گفتگو سننے کے لیے میری نظر باہر لگی اسکرین پر تھیں اچانک کیمرہ گھما کر جب سکرین پر سامعین کو دکھایا گیا تو مجھے مری صاحب نظر آگئے میں نے بچوں کی طرح چلاتے ہوے، جلدی سے کہا جی جی مری صاحب اندر موجود ہیں ۔
ادا نزیر لغاری صاحب نے مجھے دیکھتے ہوے پوچھا سچ کہ رہی ہو ؟مینے سر ہلایا ۔۔تو انہوں نے کھڑے ہوتے ہوے کہا چلو اندر چلتے ہیں مری صاحب کو بلاتے ہیں
ہم۔اندر گئے تو تھوڑی دیر بعد انور مقصود صاحب کو سنا پھر اختام کے بعد مری صاحب اور ادا نزیر تو حال سے باہر چلے گئے میں کچھ دیر کے لیے حسینہ معیںن صاحبہ اور نورالہدیٰ شاہ صاحبہ جو کہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں سے ملاقات کے لیے ٹھر گئی ۔پھر باہر آکر دیکھا تو بڑے لوگوں کی محفل سجی ہوئی تھی ۔ادا نزیرلغاری صاحب اور مری صاحب بھی وہیں اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود تھے
میں غیر مناسب سمجھتے ہوے اپنی فیملی اور اپنی دوست کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی ۔ادا نزیر لغاری کی نظر مجھ پر پڑھی تو مجھے بُلا کر سب سے تعارف کروایا ۔کچھ دیر باتئیں ہوتی رہیں پھر ہم گھر لوٹ آئے اسی رات گیارہ بجے ادی عابدہ بتول اور ادا نزیر لغاری کا مسیج ملا کہ کل دوپہر تین بجے ادا نزیر اور ادی عابدہ بتول کے گھر ملیرکنٹ میں شاہ محمد مری صاحب کے ساتھ سرائیکی عوامی تریمت تحریک کا لکچر رکھا گیاہے اندھا کیا چاہے ۔۔دو آنکھیں والی مثال ہمارے لیے ہی بنی تھی۔۔شاید
ڈاکٹر شاہ محمد مری ۔
شاہ محمد مری 1953 میں ماوند ضلع کوہلو میں پیدا ہوے
ابتدائی تعلیم کوہلو اور سبی سے حاصل کی بعد ازاں بولان میڈیکل کالج کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کیا آپ نے لاہور سے پتھالو جی میں ایم۔فل کیا اور اسی بولان میڈیکل کالج میں طویل عرصہ پڑھاتے بھی رہے اور 2013میں بطور وائس پرنسپل ریٹائر ہوے
زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں سے وابسطہ رہے کالج کے دوران کچھ عرصہ جمعیت اور بی ایس او سے وابستہ رہے
آپ نے سیاسی ترییت پاکستان کے معروف سوشلسٹ رہنما سی آر اسلم سے دوران تعیلم حاصل کی اور سیاسی طور پر ان کی تنظیم پاکستان سوشلسٹ پارٹی سے وابسطہ رہے ساتھ ساتھ ادبی محاز بھی سنبھالا
آپ بائیں بازو کے نظریات کے فروغ میں سرگرم رہے
1998 سے سنگت کے نام سے سیاسی وادبی ماہا نا شائع کررہے ہیں
سنگت اکیڈمی آف سائنسیز کے بانی رکن ہیں
شاہ محمد مری صاحب نے پچاس سے زائد کتب تصنیف کی ہیں جن میں کئی کتابوں کےتراجم بھی شامل ہیں
مری صاحب کا شمار ان ترقی پسند رہنماوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی چار کرسیوں والی (مری لیباٹری)فاطمہ جناح روڈ پر واقع چھوٹے سے کمرے میں بڑے لوگوں کی بڑی نشستں ہوتی رہیں اور اس مری لیباٹری میں باکمال لوگوں کی کھیپ تیار ہوتی رہی۔
وہ ایک ایسے سپہ سالار ہیں جو قلم کی نوک سے قوم ملک و قوم کی جنگ لڑ رہے ہیں
ڈاکٹر شاہ محمد مری نہایت نفیس شخصیت ہیں محبت اور علم باٹنیں والے شفیق استاد اور اہک مدبر رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مجلس میں بہت کچھ سکھنے کو ملتا ہے
۔اور ہمارے لیے ان سے ملاقات کسی فخر سے کم نہیں
جس کے لیے ادا نزیر لغاری اور ادی عابدہ بتول کے بہت شکر گزار ہیں کہ ہمارے لیے ایسی نشست کا اہتمام کیا گیا اور پوری سرائیکی عوامی تریمت تحریک کی طرف سے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا تہہ دل سے ممنون ہیں کہ اپنے بطور خاص ہماری تنظیم کے لیے اپنا قیمتی وقت عنایت کیا آخر میں ادی عابدہ بتول اور ادی کرن لاشاری نے مری صاحب کو سرائیکی نیلی اجرک پہنائی اور ہم۔نے خوب سلفیاں لے کر اس یادگار ملاقات کو تصاویر میں قید کر لیا
شکریہ ڈاکٹر شاہ محمد مری