بستی بستی نام ہے جن کا
جن کے چرچے قریہ قریہ
جن کے گرد بنے ہیں ہالے
تیز سنہرے رنگوں والے
جن کے پاس ہیں جال نرالے
مقناطیسی دھاگوں والے
جن کے پاس طلسم ہیں ایسے
جو بھی ان کی جانب دیکھے
بس وہ ان کی جانب دیکھے
جو بھی دیکھ وہ یہ بولے
اور نہیں ہیں ان کے جیسے
عزت والے عظمت والے
ایک معمہ ہے سادہ سا
پھر بھی لیکن سمجھ نہ آؤ
جانے کیسے لوگ ہیں لوگو!!۔
کہاں کے ہیں یہ لوگ کہ جن کے
سر پر پگڑی بہت ہی اونچی
پر جن کا لنگوٹ کھلا ہے
ہونے کے خواب
سُنا ہے دور بہت دور بہت فاصلے پر
گھنے اندھیروں کے جنگل کے پار گر جائیں
تو ایک چشمہ ہے ایسا کہ
جس کے پانی کا
بس ایک گھونٹ پیئے جو امر وہ ہوجاؤ
گر اس جہان سے
(جو جھوٹ اور دھوکہ ہے)
چلے بھی جائیں تو کیا ہے
پلٹ کے آئیں گے
نئے بدن میں
نیا نام اور روپ لیے
اگر پلٹ کے نہیں آؤ
اس جہان میں تو
نئے جہان کے دروازے کھلیں گے ہم پر
تمام ذائقوں
سب لذتوں کے ڈھیر لیے
جہاں رہیں گے ہمیشہ کے واسطے ہم لوگ!۔
دل کا کیا کیجئے
(توکلی مست سے ماخوذ)
دل ہے
دل کا کیا کیجئے
کرتا ہے بالک ہٹ
دیوانوں سی ضد کرتا ہے
دل کا کیا کیجئے
وادی کے
سب سے اونچے
پربت کی سب سے اونچی
چوٹی اور سب سے دشوار
ڈھلانوں پر
جو پھول کھلے
وہ مانگتا ہے
بیٹوں جیسی ضد کرتا ہے
دل کا کیا کیجئے
دل کا کیا کیجئے
کہ دل ہے
قریۂ غیر آباد
کچھ طویل گلیاں تھیں
جن میں اب بسیرا تھا
ایک ہجر کا جس نے ختم ہی نہیں ہونا
کچھ اداس دیواریں
جن کے زرد چہروں پر
بن کے سرد سناٹے
تھیں لکھی ہوئی باتیں
ان تمام لوگوں کی
جو یہاں پہ رہتے تھے
مختلف زمانوں میں
مختلف مکانوں میں
جو یہاں پہ رہتے تھے
ماہنامہ سنگت کوئٹہ