آخرِ شب کی بازی

آسمان پہ شمال مغرب کی جانب
اِک آخری تارہ
رات کے آخری پہر ٹِمٹِماتا ہے
گو ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہے
پھر بھی
اندھیرے اور اُجالے
دونوں سے ٹکرتا ہے
تُم کہیں پہ ہو اور میں کہیں پر ہوں
اَن گنت میلوں کی دوری ہے
دوری کا سارا کھیل تو ذہنوں میں ہوتا ہے
پر آنکھیں کسی کی ہوں
دوری کو مات دیتی ہیں
اسی تارے کو تکتی ہیں
فرق ہے تو بس اتنا
کہ میں مسلسل دیکھتی ہوں
اور تُم، گاہے بگاہے چور نظروں سے
جانتے ہو کیوں؟
یہ اُمید کا استعارہ ہے
اور ہم اس میں
کوئی کھویا ہوا عکس ڈھونڈتے ہیں
زندگی ڈھونڈتے ہیں
مُحبت انا کے دائرے میں کھو گئی ہے
شطرنج کی بِساط پہ لگی آنکھیں
آخری بازی میں
اِک دوجے کی ہار کی منتظر ہیں
بھول چُکی ہیں
کہ مُحبت
ہار اور جیت سے ماورا ہے
داؤ پہ زندگی ہے
آخرِ شب کی بازی جیتنے سے کُچھ نہیں ہوتا
جو لمحہ بیت جائے وہ کبھی واپس نہیں آتا
زندگی ہار جائے تو
ہر کسی کو مات ہوتی ہے
اگلی چال تمہاری ہے
بِساط بڑھاؤں یا اگلی چال چلو گے؟

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*