پتلون کی زپ

ہم ائر پورٹ گھومتے رہے اور پھر اچانک دیکھا کہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر کی پتلون کی زپ کھلی ہوئی ہے وہ ہمارے محترم ہمسفر تھے اسلیے بڑی احتیاط سے انہیں بتادینا ضروری تھا .میں نے 440 وولٹ کے خطرے سے بچاؤ کے پیش نظر بہت ہی میٹھا بن کر کہا”پروفیسر صاحب ,برا نہ منائیں ,میں آپ کو بتادوں کہ اپ کے پتلون کی زپ کھلی ہوئی ہے.”-بڑی بے نیازی اور بغیر فوری ردعمل کے,سردمہری سے کہنے لگے:”آپ نے بڑی دیر کردی بتانے میں-دراصل میری پتلون تنگ ہےزپ بند نہیں ہوتی -اسلیے توہمیشہ دونوں ہاتھ وہیں باندھے رکھتا ہوں…” میں حیران ہوا یوسفی صاحب سے کہا "آپ کو یاد ہے ضیاءالحق بھی یہیں ہاتھ باندھے رکھتا تھا اور خاتون صحافی ایماڈنکن نے اپنی کتاب "بریکنگ دی کرفیو” میں لکھا تھا کہ ضیاء ہمیشہ اپنے ہاتھ اپنے پرائیویٹ پارٹس پر رکھتا ہے…..”یوسفی صاحب نے کہا "اپنے سفر نامے میں لکھیے اور بے شک میرے حوالے سے لکھیے کہ حُسن کے پارکھ سلیم اختر نے چین کی سیاحت کھلے ذہن اور کھلی زپ کے ساتھ کی”-

اقتباس چین آشنائی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*