سرِ گنگ زارِ ہوس

 

دل کہ پندارِ عرضِ طلب کے عوض، رہنِ آزار تھا ، تم نے پوچھا؟
جب سرِگنگ زارِ ہوس، حرفِ جاں بار تھا ، تم کہاں تھے؟
سنگ و آہن کے آشوب میں، ہم سپرزادگاں خودپنہ تھے
تو تڑپانہ کوئی صدا آشنا
اپنے احساس کے کوہ قلعوں میں عمر آزما سر کشیدہ رہے
گونجتا کوئی لمحہ نہ آیا
تم نے سوچی ، کبھی ایسی شب خون ساعت کہ اک پیرہ زَن
سینہِ ناتواں سے لگائے کوئی طفلِ بیمارِجاں
(ترکہِ آخری)
دردِ حق سے تبرگاہِ تیرہ میں بھی سرفروزاں رہے
تم نے دیکھا کبھی ایسا روزِ سیہ
گرد چیخوں سے ، وحشت کراہوں سے ، لب سوز آہوں سے ،دو دِعدم سے بھی تاریک تر
ہست وناہست کی قہر بادِ مسافت میں اُمید گر کیسے زندہ رہے تم نے جانا؟
تم نے سوچا، نہ دیکھا، نہ جانا
کہ اعضا ئے یگ دیگراں خود سے بے گانہ تھے
ہم تھے آتش تغار اور تم تک نہ پہنچی ، کوئی لمس آنچ
مہر بر دل تم ایسے تھے ، دیر وز کاہر زبان قرض
تم سے اگلواتا تھا ، اپنے حرف ، اپنے الفاظ ، اپنے خیال ، اپنی سوچ
اہلِ اظہار تم؟
قہرسودا گروں کے لیے پاسِ صدق ایک تخریب ہے
ہم خطا کار، کارِ خطا بے خبر
تم وفادار غارت گرانِ وفا ، شکوہ سنج
دل کہ پندارِ عرضِ طلب کے عوض رہن آزار تھا، تم نے پوچھا؟
جب سرِگنگ زارِ ہوس ،حرفِ جاں بار تھا، تم کہاں تھے؟

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*