غزل

 

جو بَن کے چھاؤں کِھلے سفر میں فریبِ گْل کے وہ شاخچے تھے

جو خاک زاروں سے رِس رہے تھے وہ جستجووں کے آبلے تھے

زمیں پہ جادو بھری فِضا کا یہ المیہ تھا بنامِ حیرت

نظر شبستاں میں کھو گئی تو وہی توَہْم کے دائرے تھے

جو “کچھ” تھے اپنے مْخالفوں کے “کچھ” اور ہونے پہ سوختہ تھے

جو “کچھ نہیں ” تھے، نہیں کی سِیخوں سے اپنے سینوں کو داغتے تھے

وہ گرم جلتی ہوئی سلاخیں تھیں میری آنکھیں نکالنے کو

جو پھیلتے جا رہے تھے پیہم وہ خواب میرے ہی طاس کے تھے

جو دْوریوں میں مَرے تھے اْن کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں تھا

کوئی دِیا اْن کے نام کا تھا، نہ پھول تْربت کے واسطے تھے

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*