تیزاب اور عورت کا چہرہ

 

کوئٹہ شہرہے صوبائی حکومت کادارالحکومت ۔ بروری روڈ کے بھرے بازار میں دن دہاڑے ٹیوشن پڑھا کر گزارہ کرنے والی ایک یتیم بچی کو ماں کے ساتھ آگ جیسے جھلسا دینے والے تیزاب کی بارش سہنی پڑی۔ ہمارے سماج کے بارے میں دانشوروں کے بڑے بڑے بول ایک بار پھرشرماگئے ۔ہم نے ایک بار پھر خود کو شرمسار کردیا۔اتنی بڑی سماجی سیاہ کاری کے سامنے سرکار نے ہمیشہ پیسہ کو مداوا سمجھا۔ ایک چیک بچی کو پکڑا دیا، تصویر کھچوالی، اخباروں اور سوشل میڈیا کا پیٹ بھرا، اور ہر طرح کی ذمہ داری سے مبرا۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست انسان کی جان ،مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔
جیسے کہ ہوتا ہے ، فیس بک کچھ بھی نہ کرنے والے بیکار لوگوں نے پہ ’’کہاں گئیں انسانی حقوق کی تنظیمیں ؟‘‘اور ’’کہاں گئیں موم بتیاں جلانے والی مائیاں؟‘‘ جیسے گرے ہوئے فقرے لکھ کر اپنی بے جان اور بھرے پیٹ والی روح کی ڈکار ماردی اور بس ۔
یا پھر دوسری طرف سیاسی شعور رکھنے والی سیاسی سماجی اور ادبی تنظیموں کو لیٹے لیٹے تجاویزدی گئیں کہ قراردادوں سے کچھ نہیں ہوگا، آسمان گرا دو ، تاج وریاست و تخت کو دھڑن تختہ کردو، متاثرہ بچی کے گھر عیادت کے لیے سبی تک لمبی لائن بنا دو۔ انقلاب ، سیاست سب کچھ چھوڑو جلدی فیس بک پہ ’’کار کردگی ‘‘ کی تصویر شیئر کردو ۔
موبائل سے انقلاب انقلاب کھیلنے والوں /والیوں پہ ہمارا یہ اداریہ بھی بے اثر ۔ مگر سنجیدہ قارئین کو دعوتِ فکر ہے کہ کسی قسم کی بھی انسانی اشرف تحریک اُس وقت تک پاک اور بابرکت نہیں ہوتی جب تک کہ اُس میں طبقاتی سماج کے اُس گھناؤ نے رُخ کے استرداد کو ساتھ نہ ملایا جائے جو وہ آدھی آبادی یعنی عورتوں سے روا رکھتا ہے ۔ آپ خواہ ’’اِشو بیسڈ‘‘ کام کررہے ہیںیا عمومی فکری اور دانش وری کا کام ،عورت پہ قہر کا نکتہ اُس کے اہم ترین نکات سے ہونا چاہیے۔
ریاست اور متعلقہ محکموں سے ایسے ہر گھناؤنے غیر انسانی جرم کے بارے میں باز پر س ہونی چاہیے۔ جو کوئی بھی ایسی حرکت کرتا ہے، جوا بدہ تو حکومت ہی ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ شہر یوں اور ریاست کے معاہدے درج ہے کہ شہریوں کی جان ومال کا تحفظ ریاست کرے گا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*