اَجنبی ہمسفر

اے ذرا دیر کے اجنبی ہمسفر
ہم سے نہ ڈر
چند لمحوں کا یہ ساتھ ہے
اِس رات کی جانے کب ہو سحر
ہمیں راس آیا نہ کوئی شہر
اور
کچھ دیر میں موڑ مُڑ جائیں گے
ذرا دیر تو ساتھ چل
پھر ہم مسافر چلے جائیں گے
راستے جب بدل جائیں گے
تو
اگلی مسافت پہ ہو جائیں گے گامزن
پڑاؤ کریں؟ یہ تو مُمکن نہیں!
نہ ہو بدگُماں جانِ مَن
کہ زمانے سے سیکھا ہے یہ ہی چلن
تو اپنی سُنا اور میں اپنی کہوں
گئے وقت کا کوئی جھوٹا قصّہ
یا سچی لگن
راستہ ہے بہت ہی کٹھن
یونہی سُنتے سُناتے گُزر جائے گا
اجنبی ہمسفر
وہ جو خود سے ڈرے
اُس سے کاہے کا ڈر؟
آگہی کا یہ مشکل سفر
کاٹے کٹتا نہیں
خار ہی خار
بکھرے ہوئے ہر ڈگر
پیر زخمی ہوئے
ہاتھ خالی رہے
شاخِ اُمید ہے بے ثمر
جو ہرا نہ ہوا ایک ایسا شجر
ہمیں کھا گئی خود ہی اپنی نظر
چُونکہ چُنانچہ اگر نہ مگر
ہم تو مجذوب ہیں
اجنبی ہمسفر۔۔۔۔
ہم منزلوں کے مسافر نہیں
لکیروں میں لکھا ہے آوارہ پَن
اِک نوائے حزیں
اور کاندھوں پہ رکھی ہے درماندگی
ہم سے اُٹھتا نہیں
اب یہ بھاری وزن
ہر اِک گام ہے دُھوپ سایہ فگن
کچھ اُتر جائے گی
راہگُزر کی تھکن
اجنبی ہمسفر
چند لمحے ٹھہر۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

19th November 2020

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*