سماج اِک ہوس زدہ جسم ہے
اس کی ٹانگوں کے درمییاں
جھولتے پنڈولم کا گندا پانی
ہر گلی اور ہر قریہ میں بکھر گیا ہے
پھولوں سے کانٹے چمٹ کر
نازُک پتیاں چھید ڈالتے ہیں
کانچ کے ٹُوٹے کھلونے
ہر طرف بکھرے پکڑے ہیں
پاپ کی نجاست سے گٹر اُبل رہا ہے
خون نالیوں میں بہہ رہا ہے
مائیں اپنے بال کھولے
بین ڈالتی ہیں
ایسے بین جنہیں سُن کر
کلیجہ پھٹنے لگتا ہے
آنسوؤں کے سمندر بہتے رہتے ہیں
اور کوئی سونامی نہیں آتی
رودالیوں کے بین کوئی نہیں سُنتا
ٹھہرے پانی میں طوفاں نہیں آتا
گلی سڑی لاش باس مارتی ہے
اتنا تعفُن ہے
کہ سانس لینا مُشکل ہے۔
اور تُم طاقت کے نشے میں چُور
اپنے آپ کو پاک سمجھتے ہو
کمزور کی دُنیا چھین کر
جنت کے خواب دیکھتے ہو
وہ چار سالہ بچی
اب کبھی بھی سو نہ پائے گی
ہر رات
خوں بھری شلوار دیکھے گی
آدمیت کی
اُتری ہوئی شلوار دیکھے گی
خون میں لتھڑی ہوئی
اِنسانیت کی لاش دیکھے گی
اور چیخے گی
آسماں اپنی ہی جنت میں
ہمیشہ کی طرح
آسودگی کی نیند سوتا رہے گا
میں تو رودالی ہوں
میں یونہی روتی رہوں گی
تُم اتنا تو کر ہی سکتے ہو
کہ
اس اُبلتے ہوئے گٹر کا ڈھکن کھول دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
18th November 2020
چار سالہ علیشہ کے نام