دو فرلانگ لمبی سڑک

کچہریوں سے لے کر لا کالج تک بس یہی کوئی دو فرلانگ لمبی سڑک ہو گی ہر روز مجھے اسی سڑک پر سے گزرنا ہوتا ہے کبھی پیدل کبھی سائکل پر سڑک کے دونوں طرف سوکھے سوکھے اداس سے درخت کھڑے ہیں ان میں نہ حسن ہے نہ چھاؤں. ٹہنیوں پر گدھوں کے جھنڈ ہیں سڑک صاف سیدھی اور سخت ہے میں نو سال سے اس پر چل رہا ہوں سخت پتھروں سے یہ سڑک تیار کی گئی ہے اور اب اس پرکول تاربچھی ہے جس کی عجیب سی بوگرمیوں میں طبیعت کو پریشان کر دیتی ہے
سڑکیں تو میں نے بہت دیکھی ہیں لمبی لمبی ، چوڑی چوڑی سڑکیں ، برادے سے ڈھنپی ہوئی سڑکیں ، سڑکیں جن پر سرخ بجری بچھی ہوئی تھی ، مگر نام گنانے سے کیا فائدہ جتنی اچھی طرح میں اس سڑک کو جانتا ہوں ، کسی اپنے گہرے دوست کو بھی اتنی اچھی طرح نہیں جانتا ہر صبح اپنے گھر سے جو کچہریوں کے قریب ہی ہے ، اٹھ کر دفتر جاتا ہوں جو لا کالج کے پاس ہی ہے
اس کا رنگ کبھی نہیں بدلتا سینکڑوں ہزاروں انسان ، گھوڑے گاڑیاں ، موٹریں اس پر سے ہر روز گزر جاتی ہیں اور پیچھے کوئی نشان باقی نہیں رہتا اس کی ہلکی نیلی سطح اسی طرح سخت ہے ، جیسی پہلے روز تھی جب ایک یوریشین ٹھیکدار نے اسے بنایا تھا
یہ کیا سوچتی ہے ؟ یا شاید یہ سوچتی ہی نہیں میرے سامنے ہی ان نو برسوں میں اس نے کیا کیا واقعات اور حادثے دیکھے لیکن کسی نے اسے مسکراتے نہیں دیکھا ، نہ روتے ہی
"ہاے بابو ! اندھے محتاج ، غریب فقیر پر ترس کر جاؤ رے بابا ! اے بابو !
خدا کے لئے ایک پیسہ دیتے جاؤ رے بابا ارے کوئی بھگوان کا پیارا نہیں”
بیسیوں فقیر اسی سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں کوئی اندھا ہے تو کوئی لنجا کوئی پیسا دے دیتا ہے ، کوئی تیوری چڑھائے کر گزر جاتا ہے. کوئی گالیاں دے رہا ہے "حرام زادے ، مشٹنڈے ، کام نہیں کرتے. بھیک مانگتے ہیں”
دو لڑکے سائکل پر سوار ہنستے ہوئے جا رہے ہیں ایک بوڑھا امیر آدمی اپنی شاندار فٹن میں بیٹھا سڑک پر بیٹھی ہوئی بھکارن کی طرف دیکھ رہا ہے اور اپنی انگلیوں سے مونچھوں کو تاؤ دے رہا ہے ایک سست کتا فٹن کے پہیوں کے نیچے آ گیا ہے اور سڑک پر خون بہ رہا ہے
پھر کبھی سڑک سنسان ہو جاتی ہے صرف ایک جگہ درخت کی چھاؤں میں ایک تانگے والا گھوڑے کو سستا رہا ہے گدھ ٹہنیوں پر بیٹھے اونگھ رہے ہیں پولیس کا سپاہی آتا ہے
"او تانگے والے یہاں کھڑا کیا کر رہا ہے؟ کیا نام ہے تیرا ؟ کر دوں چالان”
"ہجور !”
” ہجور کا بچہ! چل تھانے”
"ہجور !”
"یہ تھوڑا ہے اچھا جا”
تجھے معاف کیا”
تانگے والا تانگے کو دوڑائے جا رہا ہے راستے میں ایک گورا آ رہا ہے سر پر ٹیڑھی ٹوپی ، ہاتھ میں چھڑی ، لبوں پر کسی ڈانس کا سر
"کھڑا کر دو ، کنٹونمنٹ”
"آٹھ آنے صاب”
"چھ آنے”
"نہیں صاب”
"کیا بکٹا ہے تم”
تانگے والے کو مارتے مارتے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے لوگ اکھٹے ہو رہے ہیں پولیس کا سپاہی بھی پہنچ گیا ہے "حرام زادے ، صاب سے معافی مانگو”
تانگے والا اپنی میلی پگڑی سے آنسو پونچھ رہا ہے لوگ چلے جاتے ہیں
اب سڑک پھر سنسان ہے
شام ہو گئی ہے میں نے دیکھا کہ کچہریوں کے قریب چند مزدور میلے لباس پہنے باتیں کر رہے ہیں
"بھیا بھرتی ہو گیا؟”
” ہاں. سنا ہے جنگ شرو ع ہونے والی ہے”
"کب شرو ع ہو گی؟”
"کب اس کا تو پتا نہیں مگر ہم غریب ہی تو مارے جائیں گے”
"کون جانے غریب مارے جائیں گے یا امیر”
"ننھا کیسا ہے؟”
"بخار نہیں ٹلتا کیا کریں ادھر جیب میں پیسے نہیں ادھر حکیم سے دوا …”
"بھرتی ہو جاؤ”
"سوچ رہے ہیں”
” رام رام ! ”
پھٹی ہوئی دھوتیاں ، ننگے پاؤں ، تھکے ہوئے قدم، یہ کیسے لوگ ہیں ! یہ کیسی عجیب باتیں ہیں ! پیٹ ، بھوک، بیماری، پیسے ، حکیم کی دو ا ، جنگ !
بجلی کی زرد زرد روشنی سڑک پر پڑ رہی ہے دو عورتیں ایک بوڑھی ایک جوان اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے خچروں کی طرح چلی جا رہی ہیں جوان عورت کی چال تیز ہے
"بیٹی ، میں… ذرا ٹھہرتو” بوڑھی عورت کے چہرے پر جھریاں ہیں اس کی چال مدھم ہے
” بیٹی ، میں… ذرا ٹھہر، میں تھک گئی …میرے اللہ.”
"اماں، ابھی گھر جا کر روٹی پکانی ہے… تُو، تو باولی ہوئی ہے”
” اچھا بیٹی اچھا بیٹی”
بوڑھی عورت جوان عورت کے پیچھے بھاگتی ہوئی جا رہی ہے بوجھ کے مارے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں
وہ صدیوں سے اسی سڑک پر چل رہی ہے اپلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے کوئی اس کا بوجھ ہلکا نہیں کرتا کوئی اسے ایک لمحہ سستانے نہیں دیتا وہ بھاگی ہوئی جا رہی ہے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اس کی جھریوں میں غم ہے اور بھوک ہے
تین چار نوخیز لڑکیاں بھڑکیلی ساڑھیاں پہنے، بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے جا رہی ہیں
"بہن ! آج شملہ پہاڑی کی سیر کریں”
"بہن ! آج لارنس گارڈن چلیں ”
"بہن ! آج انار کلی !”
"ریگل”
شٹ اپ ، یو فول !”
آج سڑک پر سرخ بجری بچھی ہے ہر طرف جھنڈیاں لگی ہوئی ہیں پولیس کے سپاہی کھڑے ہیں کسی بڑے آدمی کی آمد ہے اسی لئے تو اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے لڑکے نیلی پگڑیاں باندھے سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہیں ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں ہیں ان کے لبوں پر پیڑیاں جم گئی ہیں ان کے چہرے دھوپ سے تمتما اٹھے ہیں اسی طرح کھڑے کھڑے وہ ڈیڑھ گھنٹے سے بڑے آدمی کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ پہلے پہلے یہاں سڑک پر کھڑے ہوئے تھے تو ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اب سب چپ ہیں چند لڑکے ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گئے تھے اب استاد انھیں کان سے پکڑ کر اٹھا رہا ہے شفیع کی پگڑی کھل گئی تھی استاد اسے گھور کر کہہ رہا ہے "او شفی ! پگڑی ٹھیک کر” پیارے لال کی شلوار اس کے پاؤں میں اٹک گئی ہے اور ازار بند جوتیوں تک لٹک رہا ہے
"تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے پیارے لال !”
"ماسٹر جی پانی !”
"پانی کہاں سے لاؤں ! یہ بھی تم نے اپنا گھر سمجھ رکھا ہے دو تین منٹ اور انتظار کرو بس ابھی چھٹی ہوا چاہتی ہے”
دو منٹ ، تین منٹ ، آدھا گھنٹہ
"ماسٹر جی پانی !”
"ماسٹر جی پانی !”
"ماسٹر جی بڑی پیاس لگی ہے”
لیکن استاد اب اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے وہ ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے ہیں”
لڑکو! ہوشیار ہو جاؤ، دیکھو جھنڈیاں اس طرح ہلانا ابے تیری جھنڈی کہاں ہے؟
قطار سے باہر ہو جا، بدمعاش کہیں کا…
سواری آ رہی ہے
بڑا آدمی سڑک سے گزر گیا لڑکوں کی جان میں جان آ گئی ہے اب وہ اچھل اچھل کر جھنڈیاں توڑ رہے ہیں شور مچا رہے ہیں
صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں بھنگی جھاڑو دے رہا ہے اس کے منہہ اور ناک پر کپڑا بندھاہے جیسے بیلوں کے منہہ پر، جب وہ کولھو،، چلاتے ہیں
سڑک کے کنارے ایک بوڑھا فقیر مرا پڑا ہے
اس کی کھلی ہوئی بے نور آنکھیں آسمان کی طرف تک رہی ہیں
"خدا کے لئے مجھ غر یب پر ترس کر جاؤ رے بابا”
کوئی کسی پر ترس نہیں کرتا سڑک خاموش اور سنسان ہے یہ سب کچھ دیکھتی ہے، سنتی ہے، مگر ٹس سے مس نہیں ہوتی
اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر اسے ڈائنامائٹ لگا کر اڑا دیا جائے تو پھر کیا ہو اس کے ٹکڑے اڑجائیں گے اس وقت مجھے کتنی خوش حاصل ہو گی اس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا
سڑک خاموش ہے اور سنسان بلند ٹہنیوں پر گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں یہ دو فرلانگ لمبی سڑک…

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*