بڑی سی کھڑکی کے سامنے بڑی سی ٹیبل پر کاغذوں اورکتابوں کا ڈھیر لگا ہو اتھا۔ فاسٹ کچھ دیر تک تو اس ڈھیر کو دیکھتا رہا اور پھر بازو پھیلا کر بے ترتیبی سے پڑے کاغذوں کو ایک طرف دھکیل دیا اور جانے کیوں ماضی میں جھانکنا شروع کر دیا۔ غربت بھری زندگی …… باپ کی فیکٹری میں مزدوری…… والدہ کی وفات ……! اس کے کانوں میں اس کی اپنی آواز گونجنے لگی کہ جو اخبار بیچتے ہوئے لگایا کرتا تھا۔ فاسٹ نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ میز پر رکھے اس ڈھیر پر ایک اُچٹتی نگاہ ڈالی۔”سپارٹیکس“…… اس کی نظر کتاب پر پڑی تو مسکرا دیا۔ اس نے کتاب اٹھائی۔ مسکراتے ہوئے دیکھتا رہا۔ صفحے پلٹتے ہوئے وہ اٹھا اورکھڑکی کی جانب بڑھا۔ پردے کھینچے۔ دوکان میں بے تحاشا انگیاں لٹک رہی تھیں۔ اور پین کا باپ نئے آئے پیکٹ میں سے انگیاں نکال کر کونے میں رکھے انبار میں رکھتا جا رہا تھا۔ کوئی بات ہونے پر پین آج پھر چیخا ’بریزئیر نہیں بناؤں گا مزید‘۔ جس پر باپ نے کہا ’یہ تم کہوگے کہ تم نے بریزئیر بنانے ہیں کہ نہیں؟ اگر کام نہیں کرنا تو امریکہ چلے جاؤ۔ باپ چیخا۔

فاسٹ مسکرایا اور واپس آکر ٹیبل کے قریب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔کتابوں کے نیچے سے کاغذ نکالے اور قلم اٹھا لیا۔ فاسٹ کو ایک نیا موضوع ہاتھ آگیا۔اسے لگا کہ اس کے پاس لکھنے کو بہت کچھ تھا۔اسی دوران اس نے دیکھا کہ ایک خاتون سے پین کی دوستی بڑھ رہی ہے۔ وہ عورت کے بہت قریب ہوا لیکن اچانک سے وہ عورت غائب ہو گئی۔ جانے کہاں چلی گئی۔ دن گزرتے چلے گئے۔

پچھلے کئی دن سے برف باری ہو رہی تھی۔ اب تو برف گھٹنوں تک پہنچ چکی تھی۔فضا ٹھٹھر رہی تھی۔ فاسٹ کچن میں کھڑا اپنے لیے کافی بنا رہا تھا کہ ایک دم سے درد ناک مسلسل چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اس نے تیزی سے پچھلی جانب کھلنے والی کھڑکی کھول کر باہر جھانکا۔ زمیندار نواب پین پر کوڑے برسا رہا تھا اور وہ بری طرح چیختے ہوئے کہہ رہا تھا ’خدا تمھاری مدد کرے اور تمھارے جیسوں کی۔ خدا تمھاری مدد کرے۔ خدا تمھیں تباہ کرے، خدا تمھیں تباہ کرے‘ فاسٹ نے دیکھا کہ زمیندار اسے پِیٹ کر چلا گیا اور پین اپنے باپ کے سامنے چیخ رہا تھا،’آپ ایک انگیا بنانے والے ہیں اور میں …… اور اگر آپ ایک بھکاری ہوتے، میں بھی ہوتا…… اور اگر آپ ایک چور ہوتے میں بھی ہوتا، زمیندار کے سامنے جھکتا، غربت اور میل میں زندہ رہتا۔ جب شکاری کتے دوڑے آرہے ہوتے تو راستے سے بھاگ کر دور ہو جاتا۔ جب لیڈی آرہی ہوتی تو سامنے سے ہٹ جاتا۔ چرچ جاتا اور خدا کی عبادت کرتا‘۔

اور پھر فاسٹ نے دیکھا کہ وہ امریکہ چلا گیا۔ نو ہفتوں کے طویل سفر، بیماروں اور لاشوں کے ڈھیر میں وہ نیم مردہ حالت میں پہنچ گیا۔وہ زندہ بچ گیا۔ ایک کمرے کے مکان کو گھر کرتا وہ ایک شیلنگ اور پھردو شیلنگ پر ٹیوشن پڑھانے لگا۔ ایک روز سیاہ فام غلام عورتوں کی منڈی گیا۔اور پھر بولی لگانے کے اس ذلت آمیز واقعے کے بعد مہینوں تک نڈھال رہا کہ جب سفید فام نہیں صرف سیاہ فام عورتوں کو ننگا کر کے ان کی بولی لگائی جارہی تھی۔اور جب سیاہ فام غلاموں کی خرید فروخت اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تو یہ دکھ اس کی آنکھوں کے ذریعے دل میں اتر گیا۔ ہاورڈ فاسٹ نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور لکھنے کو صفحہ پلٹا۔

ٹام پین ایٹیکن کی کتابوں کی دوکان میں بیٹھا تھا جہاں سے وہ کوئی چھوٹی کتاب یا پمفلٹ شائع کرتا تھا اور کتابیں بھی خریدتا تھا۔وہیں بیٹھے بیٹھے پنسلوانیا میگزین کا جنم ہوا۔ بھگوان کو برا بھلا کہنے کے جرم میں جو وہ ٹیوشن سے تو ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ وہ بے تحاشا کتابیں پڑھنے لگا اور پھر جوتے بنانے کو وہ ایک موچی کی شاگردی کرنے لگا کہ اس کام کو وہ انگیا بنانے سے بہتر گردانتا تھا۔بہت کچھ کرنے کے بعد وہ بالآخر ایڈیٹر بن گیا اوراپنے حقیر ہونے کے احساس سے نجات حاصل کی اور پنسلوانیا میگزین کی باقائدہ اشاعت شروع کردی۔انسانی غلام منڈیاں، پھانسی گھاٹ، غلیظ جیلیں جہاں انسانیت کی تذلیل جاری تھی۔اس کو اس سب کے خلاف لکھنے سے منع کرنے کے باوجود وہ ضمیر کی آواز پر سے بچ نہیں پا رہا تھا۔ ہر طرف ظلم کی بکھری نشانیوں کو وہ میگزین میں یکجا کرتا رہا۔اس نے ایک مضمون ’اعزازات پر غور و فکر‘ لکھا۔ اس نے انسان کے تقدس، حقوق، اس کی آزادی، ایک چھت اور زمین کے ایک ٹکڑے کی بات کی۔

فاسٹ نے دیکھا کہ فلیڈیلفیا کی دوسری کانٹی نینٹل کانگریس میں اس نے ایک نئی دنیا کی بات کی۔آزادی، لبرٹی، عمدہ قوانین، انسانی حقوق،عمدہ عدالتوں اور غربت سے آزادی کی بات کی۔’اور ٹام پین نے ایک چھوٹی سی کتاب ’کامن سینس‘ لکھ کر تہلکہ مچا دیا‘ لکھتے ہوئے لمبی سانس کھینچی اور کافی کا مگ بھرنے اٹھ کھڑا ہوا۔

کامن سینس بلا شبہ تھامس پین کا ایک کارنامہ ہے جس میں آزادی اور پھر اس آزادی کے حصول کی جدوجہد ہے۔ امریکی عوام کو کامن سینس ہی نے Stream line کیا۔ انھیں ایک واضح منزل کی نشان دہی کی گئی جس کو پانے کے لیے امریکی عوام جت گئے۔

تھامس پین کا کہناتھا کہ صرف مفاد پرست، متعصب، کمزور لوگ مفاہمت کی بات کرتے ہیں جبکہ امریکہ کی برطانیہ سے مفاہمت میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ صرف اپنا مفاد سوچتا ہے امریکی عوام سے اسے کوئی محبت نہیں۔ تھامس پین کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ برطانیہ سے مفاہمت کرے اور اس بات کا اظہار اس نے بار بار کتاب میں کیا کہ ظلم کے ساتھ مفاہمت کبھی ممکن ہی نہیں ہوتی کیوں کہ کبھی بھی وہاں مفاہمت صحیح طو پر نہیں اگ سکتی جہاں مہلک نفرت کے زخم اس قدر گہرائی میں پہنچ چکے ہوں۔

امریکہ سے مفاہمت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ پین موروثی حق کے بھی سخت خلاف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ”ایک اور بڑا فرق بھی ہے جس کے لیے کوئی فطری یا مذہبی سبب مقرر نہیں کیا جا سکتا، وہ ہے انسانوں کی بادشاہوں اور رعایا میں تقسیم۔ نر اور مادہ تو فطرت کے امتیاز ہیں۔ اچھا اور برا تو آسمان کے دیے ہوئے امتیاز ہیں۔ مگر اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ دنیا میں انسانوں کی ایک نسل (بادشاہوں کی) کس طرح بقیہ انسانوں سے اس قدر عالی مقام پر آئی اور ایک نئی نسل و نوع کی طرح ممتاز ہوئی۔ یہ تحقیق بھی ہونی چاہیے کہ آیا وہ بنی نوعِ انسان کے لیے خوشی کا وسیلہ ہیں یا دکھ اور بربادی کا“۔

ہر آزاد روح کی طرح تھامس پین بھی ایک آزاد روح کا مالک تھا، تب ہی وہ کسی قوم کا کسی دوسری قوم کو غلام بنانے کو ایک سنگین جرم گردانتا تھا۔

امریکی بحران کے علاوہ اس نے کچھ اور پمفلٹ عوامی بہتری، خبروں کی موجودہ صورت،امن پر غور و فکر اور اس کے ممکنہ فوائد لکھے جس میں اس نے اس وقت کی خبروں پر تبصرے لکھے اور کہا کہ، یہ وہ زمانے ہیں جو انسانوں کی ارواح کی آزمائش کرتے ہیں، اور یہ کہ یہ پیغام ایک قوم سے دوسری قوم تک انتہائی خاموشی اور غیر محسوس انداز میں پہنچتا جائے گا۔1773ء میں برطانیہ اور امریکہ میں معاہدہ ہوا اور امریکہ مکمل طور پر آزاد ہوا۔

ہاورڈ فاسٹ نے غلام امریکہ کی آزادی پر ٹام پین کے ساتھ ایک آزاد فضا میں ایک طویل سانس لی اور فرانس جانے کی تیاری کی۔ سیاہی ختم ہونے والا پین ڈسٹ بن میں پھینک کر نیا قلم نکالا اور کافی کا سِپ لیا۔فاسٹ اب پین کی جدو جہدِ آزادی فرانس کے بارے میں لکھنے کو پر تول رہا تھا۔

انقلاب جو اس کا پیشہ تھا، اب امریکہ میں وہ بے پیشہ ہو گیا تھا۔ لہٰذا اس کی انقلابی روح جو دنیا کے دوسرے ممالک میں زنجیر بندھے ذہنوں جسموں کو آزادی دینے کو بے قرار تھی،فرانس کا رخ کیا جہاں کسانوں کی بدحالی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ ان کے فیوڈل نظام کو مزید سہارا دینا نا ممکن ہوا۔

ایک اور کتابچہ”انسان کے حقوق“ کے نام سے لکھا جس میں اس نے بتایا کہ انسان کے فطری حقوق کے ساتھ ساتھ شہری حقوق بھی ہوتے ہیں اور اس کے فطری حقوق اس کے سارے شہری حقوق کی بنیاد ہیں اور یہ کہ ہر شہری حق،فطری حق سے نکلتا ہے۔

دنیا کے تمام انقلابیوں کی طرح پین بھی تشدد کے سخت خلاف تھا اور کہتا تھا کہ قتلِ عام پر مبنی تبدیلی انقلاب نہیں ہوتی۔پین نے ’’دلیل کا زمانہ“ میں حقِ رائے دہی یعنی ووٹ اور انسانی مساوات کا پرچار کیا اور شخصی حکومت کی زبردست مخالفت کی۔ اس نے کہا ’میں ایک خدا پر یقین رکھتا ہوں اور بس۔ اور میں اس حیات سے بعد کی خوشی پر یقین رکھتا ہوں۔میں انسان کی مساوات پر یقین رکھتا ہوں کہ مذہبی فرائض انصاف کرنے، رحم سے پیار کرنے اور ہمارے ساتھی مخلوقات کو خوش رکھنے کی محنت پر مشتمل ہیں‘۔ اپنے پمفلٹ ”زرعی پیداوار“میں اس نے کہا کہ غربت دراصل تہذیب کی پیداوار ہے۔ اور فاسٹ نے دیکھا کہ پین کو گرفتار کر کے لگزمبرگ جیل لے جایا جا رہا تھا۔مورس کی جگہ مونروئے فرانس میں سفیر ہوا جس کی کوشش سے نومبر 1974 ء میں بیمار اور بوڑھا ٹام پین لگزمبرگ سے رہا ہوا۔

فرانس میں پین کو قومی اسمبلی کا ممبر بنا دیا گیا۔وہاں اسے اس کنونشن کی اس نو رکنی کمیٹی میں بھی نامزد کیا گیا جس نے ریپبلک آف فرانس کا نیا آئین بنانا تھا۔

ہاورڈ فاسٹ کی آنکھوں میں پانی تیر گیا، جب وہ اپنی تحریر مکمل کرنے کو تیزی سے قلم چلا رہا تھا کہ بوڑھے اور بیمار انقلابی نے امریکہ منتخب کیا اور جب الیکشن میں وہ ووٹ ڈالنے چلا تو اسے بتایا گیا کہ ’صرف شہری ووٹ دے سکتے ہیں، آپ ریاست ہائے امریکہ کے شہری نہیں ہیں،ہم غیر ملکیوں کو نہیں صرف اپنے شہریوں کو رجسٹر کرتے ہیں۔ آپ کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں‘۔ اور تین ملکوں کا انقلابی …… ٹام پین جسے انقلاب کاسپاہی تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا۔

اس کے لبوں سے یہ فقرے پھسل گئے ’کیا میں نے ایک بے عقیدہ دنیا میں خدا پر عقیدہ رکھ کر غلطی کی ہے؟کیا میں نے یہ کہہ کر غلطی کی ہے کہ خدا کے نام کی بے حرمتی نہیں کرنی چاہیے، یہ کہ وہ (خدا) انسان کی ساری امنگوں کا نکتہ عروج ہے‘۔

ہاورڈفاسٹ نے ٹام پین کے یہ آخری فقرے لکھ کر مکمل کیے تو اس کی آنکھیں مکمل طور پر نم آلود ہو چکی تھیں۔ مگر تب شاید اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا کہ ایک انقلابی کی زندگی پر لکھا گیا اس کا یہ ناول ایک روز دنیا کی نوے زبانوں میں ترجمہ ہو کر کرہ ارض کے کونے کونے میں پھیل جائے گااور ایک شہکار کہلائے گا۔ دنیا کی چوتھی بڑی زبان سمجھی جانے والی اردو میں اسے بلوچستان نامی جزیرے سے انقلاب کی چاہ رکھنے والا ایک ڈاکٹر ترجمہ کرے گا اور یہ ہم جیسے سیکڑوں عام انسانوں کے مطالعے میں آ کر ہمارے طرزِ فکر کو بدل ڈالنے کا محرک بن جائے گا۔

”سٹیزن ٹام پین“ بلا شبہ ایسا ہی ایک لازوال ناول ہے۔بے شک، لکھا ہوا لفظ نہیں مرتا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے