فیسٹیولا فاونڈیشن، بیمار عورتیں اورمسیحا ڈاکٹر شیرشاہ

آج بات شروع ہوگی اشرفی کی بےبسی کی کہانی سے۔
گو اسکے ماں باپ غریب تھے مگر بیٹی کاُ نام انہوں نے اشرفی رکھا تھا ۔ جسکی کمعمری میں شادی ہوئ -جب ماں بننے کی گھڑی آئ تو وہ چار دنوں تک درد میں تڑپتی رہی کیونکہ بچے کا سر پھنس گیا تھا۔ اور معاملہ دائ کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ گھر والے اسے کلینک لے گیۓ ۔بچہ مردہ پیدا ہوا۔ اسدن سے اشرفی کو مسلسل پیشاب بہنے کی شکایت ہوگئ۔ جو فیسٹیولا کا نتیجہ تھی۔ اس بیماری میں پیشاب یا اور پیمانے کی تھیلی میں سو آرام ہوجاتا ہے۔ بدبو میں بسی ، پیشاب کے نملیات سے رانوں پہ بنے زخموں نے اشرفی کو غم کی تصویر بنا دیا۔ پورے تیرہ سال وہ گھر سے باہر نہ نکلی بس ایک کونے میں بیٹھی سلائ کرتی، بیمار مان کا خیال رکھتی اور اپنی قسمت کو روتی کہ جسمیں شرم، بے عزتی اور تمسخر تھا۔لیکن پھر ایکدن اسکی زندگی میں ایک مسیحا آیا جس نے اسکی بیماری فیسٹیولا کا آپریشن کیا اور اس میں زندگی کی وہ چمک پیدا کی کہ جو بیماری نے چھین لی تھی۔
اس مسیحا کا نام شیر شاہ سید ہے جن کا شمار پاکستان کے بہترین گائیناکولوجسٹوں میں ہوتا ہے۔ لیکن اپنی تم اتر قابلیت کے باوجودحقیقت یہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ حکومت نے ملازمت سے برخواست کیا ۔اسکی وجہ انکا مسلسل یہ مطالبہ تھا کہ حکومتی ذرائع ایٹمی ہتھیار اور ایف سولہ کے بجاۓ تعلیم اور صحت عامہ پہ خرچ ہوں۔
عالمی صحت عامہ کے شمار کے مطابق دنیا میں ہر دن 830 عورتیں حاملہ حالت یا بچہ کی پیدائش پہ مر جاتی ہیں۔ان میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی عورتوں کی ہے۔جہاں سالانہ پانچ ہزار سے ذیادہان عورتوں کو زچگیوں کے دوران فسٹیولا ہو جاتا ہے جو سو فی صد غریب ہیں۔
سندھ کے صوبے میں کہاوت ہے کہ اگر تمہاری گاۓ مر جاۓ تو یہ ایک بڑا نقصان ہے مگر بیوی مر جاۓ تو ہمیشہ ایک اور آسکتی ہے۔شاید اسی سوچ کی وجہ سے سماج میں اتنی آسانی سے ان عورتوں کی اموات کو قبول کیا جاتا ہے۔
لیکن چونکہ ڈاکٹر شیر شاہ نے چھوٹی عمر سے اپنی ماں ڈاکٹر عطیہ ظفر کو پوری دردمندی سے غریب مریضوں کا علاج کرتے دیکھا تو ایک عام انسان کا دکھ اپنے اندر بسا لیا۔ خاص کر گایناکولیجسٹ ہونے کے ناطے، غریب و بےبس عورتوں کا۔انکی زندگی کا مقصدفیسٹیولا سے متاثرعورتوں کی زندگی بہتر بنانا ہے ۔ چاہےاسکے لیے انہیں لمبی میراتھن ہی کیوں نہ دوڑنا پڑے۔
فیسٹیولا فاونڈیشن کی جانب سے ہونے والی میراتھن : اس سے پہلے کہ ہم ڈاکٹر شیر شاہ کی میراتھن کی بات کریں ضروری ہے کہ ہم فیسٹیولا آرگنایزیشن کے متعلق کچھ جانیں۔
فیسٹیولا فاونڈیشن ۲۰۰۰ سے قائم ایک نان پرافٹ آرگنائیزیشن ہے ۔ جسکا مرکزی دفتر سن ہوزے،کیلیفورنیا میں واقع ہے۔ گو آرگنائزیشن امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں قائم ہوئ ،اس کا فوکس ترقی پذیر ممالک میں فیسٹیولا کی سرجری کروانا ہے۔ اور یہ اسوقت افریقہ اور ایشیا کے بیس ممالک میں ہونے والے آپریشن کے اخراجات اٹھا رہی ہے۔ اور انکی سرجریوں کی تعداد سب سے ذیادہ ہے۔اپنے قیام سے آج تک ، اپنی بہترین کارکردگی کی بنیاد کی وجہ سے اسکو ۸۱ ممالک سے ۸۴ ملین ڈالروں کی عطیات رقم حاصل ہوئ جو ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے فیسٹیولا کے علاج کی مد میں استعمال ہوتی ہے۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے ۳ نومبر ۲۰۱۹ کو فیسٹیولا فاونڈیشن کی سپورٹ کے لیۓ استنبول میراتھن میں حصہ لیا۔ اور ۴۲ کلو میٹر کی دوڑمکمل کی۔
اکثر مرد عورتوں کے پیچھے بھاگنے کو اپنا محور بناتے ہیں لیکن شیرشاہ بطور مسیحا عورتوں کی صحت کی بحالی کے لیے لمبی دوڑ لگاتے ہیں۔اسطرح انکی اس مہم کے نتیجہ میں فیسٹیولا فاونڈیشن کو ۳۷ ہزار ڈالرز کے عطیات حاصل ہوۓ۔
جب میں نے ڈاکٹر شیرشاہ سے پوچھا کہ آخر وہ کونسا جذبہ تھا جس نے آپکو اتنی لمبی دوڑ پہ مجبور کیا؟ تو انہوں نے برجستہ کہا” دوڑتے وقت میری نظروں کے سامنے وہ تمام عورتیں تھیں جو مجبور ہیں اور سالہا سال سے بیمار ہیں۔جن کو اپنے علاج کے لیۓ پیسوں کی ضرورت ہے۔لہٰذا میں رکا نہیں بلکہ اختتام تک دوڑتا ہی رہا”۔انکا کہنا ہے کہ اس میراتھن کے ذریعے میں فیسٹیولا کے بارے میں ذیادہ آگہی پیدا کر سکتا ہوں۔ کیونکہ ان عورتوں کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جو انکے اخراجات ادا کر سکیں۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کا نہ کوئ گھر ہے اور نہ کوئ امید”۔
(واضح ہو کہ ڈاکٹر شیر شاہ ابتک دنیا کے نو مختلف شہروں میں صحت اور سما جی مسائل سے متعلق اہم مقاصد کے حصول کے میراتھن دوڑتے رہے ہیں۔ان کی عمر ۶۷ سال ہے۔)

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*