انڈس ڈیلٹا ٹریٹی، کاغذ کا ٹکرا نہیں

ستمبر 2020 کو عارف علوی نے صدارتی فرمان کے تحت سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کو وفاق کی ملکیت قرار دیا۔ جس کے خلاف عوام سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔

یہ اہم جزیرے اب سندھ و بلوچستان حکومت کے نہیں، پاکستان آئلینڈ ڈولپمینٹ اتھارٹی کی ملکیت رہیں گے۔

صدارتی آرڈیننس اور پاکستان آئیلینڈ ڈولپمینٹ اتھارٹی دونوں کا جنم ایک روز ہوا اور ایک ہی روز نافذ عمل قرار دیا گیا۔ یہ آرڈیننس وزارت سمندری معاملات کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ آرڈیننس سیکشن49:صدارتی فرمان کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی صوبائی دعوا کا حق جو آئین کے آرٹیکل 172 اور 239 (4) کے تحت صوبائی حکومت کو حاصل ہے، اس حق سے محروم کردی گئی.

دیکھا جائے تو اس ملک کی مقتدر قوتیں، ریئل سٹیٹ، امریکن اور چائنا بیس تعمیراتی کمپنیاں خاص طرح تامس کریمر اور ملک ریاض، بلوچستان اور سندھ حکومتوں میں موجود کاروباری لوگ کافی عرصے سے ساحلی علاقوں پر سنگاپور جیسا شہر قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے تب ہی تو سندھ و بلوچستان کے عوام وفاق کے اس آمرانہ فیصلے پر ناراض ہیں۔ دیکھا جائے 2006 سے یہ سلسلہ پاکستان کے آمر جنرل مشرف کے دور سے شروع ہوا تھا جب وفاقی حکومت نے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دبئی کی ایک کنسٹرکشن کمپنی کو ہمارے جزیروں پر جدید شہر تعمیر کرنے کا کانٹریکٹ دیا۔

عوام حقیقی طور پر اپنے اپنے صوبے کے مالک ہیں، معاشی ترقی ان کا حق ہے، جس کے لیے ان سے بھاری ٹیکس بٹورا جاتا ہے۔بلکہ ساحلی علاقوں یہ محروم لوگ ملکی معیشت اور اس کی ترقی میں اپنا خون پسینا بہاتے ہیں۔ پاکستان کے پس منظر میں یہ بات بہت اہم ہے کہ جس طرح اس ملک کے لوگ اپنی پوری زندگی سخت محنت کے باوجود خاموشی سے جتنا روپیہ پیسہ پاکستان ریاست کو دے رہے ہیں اس نسبت سے 72 سالوں سے اس ملک کے محروم لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق تو الگ صحت، تعلیم، روزگار، صاف پانی، اور انصاف جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ اب تو صورتحال اور بھی خراب ہوتی جا رہی ہے جس کی مثال وفاق کا آرڈیننس ہے۔ اس سے پہلے سندھ اور بلوچستان کی سرزمین حاصل کرنے کے لئے وفاق جو راستے اختیار کرچکا ہے. اس سے یہ اندازہ لگانا کافی ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں کو اس ملک کی قوموں کی کوئی پرواہ نہیں۔

زمین، دریا اور سمندر لوگوں کے اہم معاشی ذریعے ہیں۔ زمین کی قدر کسان ہی کرسکتا ہے، نہ کہ تعمیراتی کمپنی کا مالک۔ دریا اور سمندر کی اہمیت مچھیرا ہی جانے ڈفینس ہاؤسنگ سوسائٹی کے تاجر کو اس کا کیا احساس۔ جب ریاست ہی لوگوں کے گذر بسر کے ذرائع پر قابض ہو تو پھرریاست اور عام لوگوں کے درمیان رضاکارانہ معاہدہ جسے سوشل کانٹریکٹ کھا جاتا ہے ختم ہو جاتا ہے۔یہ جزیرے نہ صرف بڑی آبادی کی خوراک کا بڑا ذریعہ ہیں بلکہ قدرتی ایکو سسٹم کو بھی قائم رکنے میں بڑا کردار نبھاتے ہیں۔ سمندر کی تقریباً96 قسم کی مچھلیوں کی نسل اور 60 قسم کی آبی گھاس، 40 سے زیادہ قسم کے نایاب پرندوں کا مستقل مسکن ہے۔ان جزیروں پر کسی بھی قسم کی تعمیرات سمندر کی زندگی کو آلودہ کرنے کے برابر ہوگی۔

حکومت کا بیانیاں ہے کہ سندھی اور بلوچ ترقی کے مخالف ہیں، حالانکہ اس بیان میں کوئی صداقت نہیں۔ عوام محض شراکت چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں جو فیصلے کرو اْس میں ان کو شامل کرو، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اور جہاں بھی عوام کو ایسے میگا پروجیکٹ میں شریک کرنے سے انکار کیا گیا ان کے نقصانات عام لوگوں کو ادا کرنے پڑے ہیں۔ سندھ بلوچستان کے باسی صدارتی آرڈیننس کے حوالے سے زیادہ حساس ہیں۔ اس لیے کہ آرڈیننس ان کے تلے سے زمین کھینچنے کے برابر ہے۔صدارتی آرڈیننس کا ایک سیاسی اور معاشی سبب بھی ہے۔ ہمارے مستقبل کے بیان کو کنٹرول میں رکھناہے۔ پاکستان کے حکمران رٹائرڈ ہونے کے بعد لوٹ کھسوٹ سے جمع کی ہوئے جمع پونجی ملک کے باہر منقل کر کے خود بھی باہر شفٹ ہوجاتے ہیں، جبکہ عام پاکستانی کو اس ملک میں رہنا ہے۔اس وجہ سے حکمران قرضے لیتے ہیں جن کا سود بھی ادا نہیں کر پاتے جو پھر عوام کو مہنگائی کی صورت میں چکانے ہوتے ہیں۔اس معاملے میں بھی پاکستان چین سے جزیروں کے بدلے قرض لینے پر آمادہ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا گذشتہ سال سری لنکا نے اپنا جزیرہ چین کے حوالے کیا کیوں کہ سری لنکاقرض چکانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ایسا ہی واقعہ افریکی ملک نائجیریا کے ساتھ ہوا۔ اس صورتحال میں سندھ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہوگا اس لئے وہ اس فیصلے خلاف بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ چینیوں کے لئے فری ویزا اور مقامی لوگوں کا داخلا بند ہوگا۔ چین کاروبار کی وجہ سے اس پورے ریجن کو کنٹرول کرے گا اور سندھ بلوچستان کو فقط آلودہ سرزمین، اور چوکیداری کی مد میں کچھ روپے حاصل ہونگے باقی قیمت اس ملک کے عام لوگوں کو ادا کرنی ہوگی. اس قیمت پر پاکستان کے حکمران تو سودا کرسکتے ہیں سندھی اور بلوچ تو زمین کا ایک انچ بھی نہیں دینگے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*