انسانی تاریخ کی یادداشت سے بھلا ایکدن میں ہونے والی نوسو سے ذیادہ افراد کی اجتماعی خودکشی کا واقعہ کیسے محو ہوسکتا ہے کہ جب اٹھارہ نومبر 1978 کو اپنے مذہبی پیشرو جم جونز کے کہنے پہ اسکے ماننے والوں نے سانائڈ ملا مشروب پی کر موت کو گلے لگا لیا۔ کیونکہ وہ ان کے مسیحا اور پیغمبر کا درجہ رکھتا تھا۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والے جم جونز کا تعلق ایک ایونجلسٹ گروپ سے تھا ، جہاں اس نے چند لوگوں سے اپنے گروپ، جو بعد میں پیپلز ٹیمپل کہلایا،کو شروع کیا اور بتدریج اپنی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پہ ایک قابل تعظیم رتبہ حاصل کر لیا۔اسکا دعوی تھا کہ وہ ذہنوں کو پڑھتا اور اسپر یقین رکھنے والوں لوگوں کو شفایاب کرتا ہے۔اس نے انسان دوستی اور رنگ و نسل کی بنیاد پہ انسانی تفریق کو رد کیا۔یہی وجہ ہے کہ اسکے گروپ میں اکثریت معاشرے کے ٹھکراۓ ہوۓ ایفرو امریکیوں کی تھی۔ جم جونز ایٹمی جنگ کے خوف کے پیش نظر یہ گروپ امریکہ سے ساؤتھ امریکہ چلا گیا جہاں جم نے انہیں گیا نا کے جنگلات میں واقع جیمز ٹاون میں یوٹوپیا (تصوراتی مقام) کا وعدہ کیا تھا۔
یہ بات بعد میں پتہ چلی کہ جونز اپنے گروپ سے بھر پور مالی فائدہ اٹھاتا تھا۔ اور اس نے اپنے سے منحرف ہونے والوں پہ جسمانی اور نفسیاتی تشدد روا رکھا تھا ۔ اور ان کی ہی شکایت کے سبب تحقیق کے نتیجہ اسکی کلٹش شخصیت سے پردہ اٹھا۔جم جونز نے اپنی زندگی کا خاتمہ خود کو شوٹ کر کے کیا۔
یہ تو تھا ماضی کا واقعہ مگر آج بھی دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں کلٹس گروپ ہیں اور انکے قائد اپنی کرشماتی شخصیت کے سحر میں لاکھوں لوگوں کو جکڑ کر بے بس کر رہے ہیں۔ جو مداری کی طرح اپنے پہ ایمان لانے والوں کو نچاتے ہیں۔ ان میں ایک اہم مثال چرچ آف سینٹولوجی گروپ کی ہے۔ اس مذہبی گروپ کے بانی ایل رون ہربڈ تھے جنہوں نے Dianetics: The Modern Science of Mental Health.” کے نام سے کتاب لکھی اور اسکو نیۓ مذہب کی بنیاد بنایا۔ آج یہ چرچ آف سینٹولوجی کسی محدود علاقے کے بجاے پوری دنیا میں ہیں۔گو اسکا مرکز ہولی ووڈ، کیلی فور نیا میں واقع ہے ۔ اس طاقتور مذہبی گروپ سے معاشرہ کے مشہور افراد کی وابستگی مثلا ٹام کروس، جیری سائنفیلڈ، بریڈ پٹ، جیسن لی، کیٹی ہومز وغیرہ نے مزید استحکام دیا ہے۔اور آج یہ بلینز آف ڈالرز کی صنعت ہے جس کا فائدہ محض اپری سطح کے افراد کو ہوتا ہے۔
اس ادارہ سے میری دلچسپی کا سبب میری ایک دوست کی اس گروپ سے وابستگی ہے جو انتہائ ذہین ، دانشور اور انسان دوست شخصیت تھی ۔ اگر وہ اس گروپ سے وابستہ نہ ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ ہم کئ اور سال اس کی حکومت کے احکام بالا کو چیلنج کرتی جرائئتمندتحریریں اور انٹرویوز پڑھتے اور آجکی نسل بھی اسکے اعلی سطح کے تخلیقی کارناموں کو پہچانتی اور سرہاتی ۔ (اسکی پرائیوسی کو مد نظر رکھتے ہوے میں نام سے گریز کروں گی)افسوس کہ اس کلٹ میں سالوں جکڑے رہنے کے بعد وہ ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوکر ہمیشہ کے لیے اس کے چنگل سے آذاد ہوگئ مگر میرا دل ہر روز اس سوال کے گردان میں الجھا رہتا ہے کہ آخر اس سطح کے ذہین افراد اس کلٹ سے کیسے جڑ جاتے ہیں اور ان کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے چنگل میں پھنس گیے ہیں۔
اس مضمون کو لکھنے کا خیال مجھے کچھ کلٹش شخصیات کے ذاتی مشاہدے کی وجہ سے بھی بارہا آتا رہا ہے جنہوں نے نوجوان ہی نہیں بلکہ پکی عمر کے بالغ افراد کو اپنی دوغلی شخصیت کے حصار میں رکھا ہوا ہے۔ ان کے پیجھے چلنے والوں کا ہجوم دیکھ کر مجھے بچوں کو سنائ جانے والی کہانی کا کردار “ پائیڈ پیپر” یاد آجاتا ہے کہ جس کی بانسری کی مدھر دھن میں ڈوب کر جرمنی کے قصبہ ہمیلین کے ڈھیروں سحر ذدہ بچے ، اپنے انجام سے بے خبر ،اس بانسری بجانے والے کے ساتھ چل د یۓ ۔ کلٹ گروپس کی تشکیل ایسے ہی طلسماتی شخصیات سے شروع ہوتا ہے اور بعد میں اسکا دائرہ بڑھ کر کلٹ گروپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
لفظ کلٹ انگریزی میں 1617میں شامل ہوا جسکا مطلب عبادت ہے۔ گو اسکا ماخذ لاطینی لفظ کلٹس ہے جسکا مطلب کسی شخص یا شہ کا خیال رکھنا اور نشونما ہے ۔تاہم کلٹ گروپس صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور دوسرے مقاصد کے لیۓ بھی بناۓ جاتے ہیں ۔
کلٹ کی نفسیات سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بننے کے عمل کو دیکھا جاے۔ جو برین واشنگ یا دماغی تطہیر اور ذہن کو کسی مخصوص سوچ سے وابستہ کرکے قابو کرنے کا طریقہ ہے۔ جو ابتداءً اسی قسم کی نرگسیت کا شکار ، طلسماتی شخصیت (یابعد میں گروپ )کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ عمل باقاعدہ شعوری منصوبہ بندی کے تحت اپنے جال میں پھنسانے اور قابو کرنے کا ہوتاہے۔جو سماجی دباو کے بعد اس کے شکار لوگوں کے رویہ میں آہستہ آہستہ تبدیلی لاتا ہے۔ اس کے لیے ایک نہیں کئ قسم کے طریقے کار فرما ہوتے ہیں۔مثلا انسانیت سے محبت کے دعوے کے ساتھ اسمیں نفسیات کا پہلو تو کبھی مذہب کے نظریات کو اپنی کلٹش نظریے کے ساتھ ملا ایک پرکشش پیکچ سا بنا کر اسے ممکنہ شکار کے سامنے پیش کیا جا تا ہے۔ اور یوں ممبران کی شمولیت سے کلٹ فرد سے بڑھ کر ایک ایسی تحریک بن جاتا ہے جو کسی انتہا پسند نظریات سے جڑی ہوئ ہوتی ہے۔
ان سب کلٹ گروپس میں کچھ مشترکہ خصوصیات ہوتی ہیں۔مثلا
۱۔ کلٹ ابتدائ طور پہ کسی کرشماتی شخصیت یا لیڈر جنہیں اکثر مرید انہیں اپنا مرشد بھی کہتے ہیں ، سے کشش کے نتیجہ میں تشکیل پاتے ہیں ۔ اور جن کا خاص ایجنڈہ ہوتا ہے۔
۲۔ممبران میں اعلی پیمانے پہ اپنے گروپ سے وابستگی
۳۔سختی سے عہدے کے مدارج کا احترام برقرار رکھنا۔مثلا چرچ آف سائنٹولوجی میں آجکل ڈیوڈ مسکیویج اعلی ترین درجہ پہ ہے اور اسکے بعد کے درجے میں ٹام کروز کا نام ہے۔ڈیوڈ ممبران کے ساتھ گالم گلوچ اور مار پیٹ بھی کرتا ہے مگر لوگ اس کے آگے چوں بھی نہیں کرتے۔
۴۔ کلٹ کا اپنے ممبران کو انکے قریبی دوستوں اور خاندان والوں سی علیحیدہ کرنا۔ مثلا ہم جانتے ہیں کہ طالبان یا الطاف حسین کی جماعت سے وابستہ افراد نے کسطرح اپنے گھروالوں کو اپنے لیڈر سے وابستگی کی وجہ سے چھوڑا تھا۔کیونکہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ انکی قربانی کسی بڑے مقصد کے لیے ہے۔ حالانکہ اصل میں وہ انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
۵۔ کلٹ کا یہ دعوی کہ ان کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہے۔یعنی کے وہ دانشوری کے اعلی مقام پہ ہیں ۔
۶۔اپنے ممبران کو اپنے تابع بنانے اورکنٹرول کرنےکے لیے وہ ہر قسم کا حربہ استعمال کرسکتے ہیں۔
۷۔ان میں کسی بھی سطح پہ مخالفت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اور منطقی سوچ پہ مبنی سوالات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔اسطرح وہ سوچ کی بنیادی آذادی اور اظہار پہ پابندی لگاتے ہیں۔
۸۔کلٹ کے نیۓ ممبران پہ محبت کی بارش اور تعریفوں کے پل تاکہ انکی وابستگی یقینی ہوجاے۔ وہ انہیں انکے محبت کرنے والوں سے دور کرکے کلٹ گروپ سے خاندانی وابستگی کر دیتے ہیں۔انہیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے دوست احباب اور رشتہ داروں سے بہتر اور صیحیح ہیں۔پھر انکے ذہن قابو کرکے وہ انہیں انکی شخصی آذادی اور ذاتی چیزوں حتی کہ آمدنی سے بھی الگ کر دیتے ہیں۔
۹۔سب کے سامنے انکی غلطیوں اور ناکامی کا ذکرکرکے بے عزتی کرتے ہیں۔وہ بار بار اپنے جھوٹ کو اتنا دھراتے ہیں کہ اصل اور جھوٹ کے درمیان تفریق مٹ جاۓ۔
۱۰۔وہ وفاداری کے معاہدہ پہ دستخط لیتے ہیں۔مثلا چرچ آف سینٹولوجی میں بلین سال کا معاہدہ دستخط کروایا جاتا ہے۔ گو یہ مدت وفاداری کی علامت ہے۔ مگر انکے نظریہ کے مطابق جب تک ذہن اور روح مکمل برائ سے مصحفا نہ ہوجاۓ وہ سکون اور نجات نہیں پاتی۔
آیۓ دیکھتے ہیں وہ کون ہیں جو کسی کرشماتی شخصیت یا کلٹ گروپ سے وابستگی اختیار کرتے ہیں؟
کلٹ گروپس دیکھتے ہیں کہ کس کو نشانہ بنایا جاۓ مثلا وہ جو اس علاقہ میں نیۓ ہوں۔ یا وہ جو کسی ذاتی اور پروفیشنل سطح پہ کسی نقصان سے گزرے ہوں۔ خاندانی نا اتفاقی یا تنہائ کا شکار ہوں۔ وہ لوگ جن میں ڈیپریشن ، ندامت اور خوف کی ذیادتی اور خود وقعتی کی کمی ہو بہ نسبت کامیاب لوگوں کو ایسے گروپس کو آسانی سے جوائن کر لیتے ہیں کیونکہ ان نیۓ ممبران کی بہت آؤ بھگت اور حوصلہ افزائ ہوتی ہے۔ اور جن کی سپورٹ نہیں ہوتی وہ اس سپورٹ کو نعمت سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو کسی قسم کے خوف یا محرومی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی اندر کی دنیا میں خالی پن ہوتا ہے وہ ان پرکشش افراد کی بنائ یوٹوپیا میں آسانی سے آجاتے ہیں تاکہ انہیں سکون اور آرام اور مالی تحفظ بھی ملے۔۔ایسے لوگ اتنے برین واش ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے مرشد کے قدموں ہی میں نہیں بلکہ ان پہ جان تک دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اور اگر ان کو شائبہ بھی ہو جاے کہ کوئ ان کے مرشد سے اختلاف رکھتا ہے تو وہ کسی سوال جواب کے بغیر اس سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔
چونکہ میرا تعلق منشیات کے عادی افراد اور ان کی تھرپی سے ہے مجھے اس کو نشے کی علت سے مماثلت محسوس ہوتی ہے۔مثلا ان میں جانے والوں کا ماحول اس غیر محفوظ ماحول سے مشابیئہ ہے کہ جس میں منشیات کی ابتداءً ہوتی ہے۔ کلٹ میں شامل ہونے والے اکثر افراد خاندانی نا اتفاقی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اکثر اس گھرانے میں پہلے ہی کسی نہ کسی کلٹ کی ممبر شپ ہوتی ہے ۔ منشیات کے عادی افراد بھی سماج اور اردگرد سے سیکھ کر نقالی میں کلٹ کا حصہ بن جاتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اسکے بعد وہ اپنا آپ کھو بیٹھیں گے۔
جب سوال پوچھنے پہ پابندی ہوتی ہے منفی جذبات جنہیں ہمارے دماغ کا سیدھا حصہ کنٹرول کرتا ہے وہا ں ٹراما کی صورت رہ جاتے ہیں اور بائیں جانب کمنطقی سوچ کا حصہ کام نہیں کرتا جس کی وجہ سے سوچ کا عمل رک جاتا ہے اور جذبات بھی منجمند ہو جاتے ہیں۔اور آخر کار کلٹ انکو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ ہم درست اور اچھائ کا پیکر ہیں جبکہ دوسرے غلط اور برے ہیں۔ اس یقین کے بعد اکثر واپسی کا راستہ نہیں رہتا ۔ تاہم کچھ افراد تیس پینتیس سال بھی ایسے کلٹ سے نکل آے ہیں اور وہ دوسروں کو راہ دکھانے میں مدد دے رہے ہیں۔ اسکی مثال اداکارہ لیا ریمنی ہے جو سالوں چرچ آف ساینٹولوجی سے وابستگی کے بعد اسکے خلاف پروگرام کر رہی ہے تاکہ اور لوگوں کی زندگیاں اس کنویں میں جانے سے بچ جایئں ۔ ہمیں ہر وقت اپنا محاسبہ ضروری ہے کہ کہیں ہم کسی بظاہر دانا کرشماتی شخصیت کے ہاتھوں اپنی عقل تو نہیں نیلام کررہے؟
اس مضمون کی تیاری میں انٹر نیٹ کے مختلف ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔
https://www.folio.ca/once-thriving-church-of-scientology-faces-extinction-says-cult-tracker/
https://www.cs.cmu.edu/~dst/Fishman/time-behar.html
https://www.cnn.com/2017/03/22/us/believer-what-is-scientology/index.html