آزاد امریکہ کے قید خانے آخر اتنے آباد کیوں ہیں؟

جب میری ملازمت امریکہ کے ایک جیل میں بطور منشیات کے عادی افراد کی تھرپسٹ کے ہوئ توکرم فرمائ کے دعوی دار ایک حضرت نے کچھ تمسخر اور کچھ طنز سے فرمایا، “ضرور کام کیجیے وہاں۔ تاکہ آپکے سوشل ورک سے متعلق آئیڈیلزم کا نشہ تو اترے”۔ میں نے اس ملازمت کو کچھ خوف اور بے یقینی کے عالم میں شروع کیا۔ مگر آج میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہ ملازمت میری زندگی کا سب سے اہم تجربہ ثابت ہوئ اور اس کے دوران میں نے جو کچھ دیکھا ،محسوس کیا اور سیکھا وہ میں کسی اعلی سے اعلی یونیورسٹی میں پڑھنے کے بعد بھی نہیں حاصل کرسکتی تھی۔ میں ان قید خانوں میں آباد ایک ایسی دنیا سے متعارف ہوئ کہ جسمیں ایک جانب تو امریکہ جیسی سپر پاور کا استحصالی کرمنل جسٹس نظام ہے کہ جسکی بنیادیں نسلی اور سماجی تفریق پہ رکھی گیئ تو دوسری جانب اس متعصبانہ نظام کا بدف وہ طبقہ جنکی اکثریت غریب، مسائل سے نبرد آزما اور وسائل سے محرومیوں کا شکار ہیں ۔ جنکی معمولی غلطیوں کی تکلیف دہ طویل دورانیہ کی سزا کے دور رس اثرات ہیں ۔جن کے سبب محرومیوں کا سلسلہ نسل در نسل چلے گا۔

امریکہ دنیا کا سب سے بڑ” جیلر”:

اس حقیقت کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ باوجود اسکے کہ امریکہ کی آبادی دنیا کی پانچ فی صد کے قریب ہے لیکن اسکی مقامی، ریاستی اور وفاقی جیلوں میں دنیا کے کل قیدیوں میں سے پچیس فی صد لوگ قید ہیں۔ 2018 میں بیورو آف جسٹس کے اعداد وشمار کے مطابق بائیس لاکھ بالغ افراد ۔اگر پروبیشن اور پیرول پہ جانے والوں کا شمار بھی کریں تو یہ تعداد 67 لاکھ تک پہنچتی ہے۔ اس لحاظ سے امریکہ نے اس معاملے میں چین، روس، انڈیا جیسے ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ لہذا اگر ہم امریکہ کو دنیا کا سب سے بڑا “جیلر” کہیں تو غلط نہ ہوگا۔یعنی اسکی ہر ایک لاکھ آبادی میں سے 655 افراد آہنی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
ضروری ہے کہ خطرناک جرائم کرنے والوں کو پکڑا جاے لیکن تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ مقامی قید خانوں میں قید دو تہائ تعداد تو انکی ہے جو مجرم ہی نہیں۔ لیکن پھر بھی جیل میں ہیں۔ اسکی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے والےوہ قیدی جو اپنے وکیل کے ذریعے سے ضمانت کی رقم دینے کے اہل یعنی امیر ہوں وہ تو باآسانی چھوٹ جاتے ہیں اور جو نہیں دے سکتے وہ اس چنگل میں پھنسے اکثر لمبی مدت تک ، اپنے مقدمہ کی تاریخ کے منتظر رہتے ہیں۔ چاہے اس دوران انکے گھر میں فاقے ہی کیوں نہ پڑ جایئں۔ دیکھا جاۓ تو امریکہ میں ہر 26بچوں میں سے ایک کے والدین جیل میں ہیں۔ اسطرح سربراہ کا جیل میں ہونا معاشی ہی نہیں کمیونٹی اور خاندانی مسلۂ بھی ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کا تعلیمی بجٹ تو 68 ارب ڈالرز ہے لیکن ان قیدیوں کو رکھنے کا خرچ سالانہ اسی ارب ڈالرز ہے جو 156 لاکھ طلباء کی یونیورسٹی کی فیس ادا کر سکتا ہے ۔لہٰذا کئ سال کی قید کے بعد جب یہ کم سطح کے مجرم بڑے مجرم بن کے نکلتے ہیں تو بجاۓ تعلیمی ڈگری یا ہنر کے ان کے ساتھ جرائم میں پی ایچ ڈی کی اعلی سند ہوتی ۔اور رہائ کے بعد متشدد مجرموں کے دوبارہ قید ہونے کا تناسب 64 اور غیر متشدد کا 40 فی صد ہے (۲۰۱۹) اگر کوئ ایک دفعہ اس نظام کے چنگل میں پھنس جاتا ہے اسکا آسانی سے نکلنا مشکل ہوتا ہے اور عموما سالہا سال ایک معمولی نوعیت کے جرم مثلا کچھ گرام ماروانا کا ہونا یا اسکو پینے کا خسارہ لمبی کورٹ اور متعلقہ فیسوں کی صورت بھرتے ہی رہتے ہیں۔

آخر ان آہنی سلاخوں کے پیچھے کون ہیں اور ان کا جرم کیا ہے؟

ویسے تو ان جیلوں میں مختلف جرائم کا ارتکاب کرنے والے قیدیوں کا تناسب جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے لیکن گذشتہ تیس سے چالیس برسوں میں جس قسم کے قیدیوں کا ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا ہے وہ ہے منشیات سے متعلق غیر متشدد مجرموں کی چھیالیس (۴۶ ) فی صد تعداد-چونکہ ایک تھرپسٹ ہونے کے ناطے میرا تعلق ایسے ہی قیدیوں سے رہا ہے ۔ لہٰذا ان کے حالات سے آگہی کی بنیاد میرا براہ راست تجربہ اور مشاہدہ ہے۔

تعداد بہ اعتبار نسل :

جب میں نے اس نوکری کو شروع کیا جو مرد مجرموں کے ساتھ تھی، تو مجھے اندازہ ہوا کہ اکثریت ایفرو امریکنوں کی ہے۔ گروپ تھرپی کے دوران میں نے ان میں تلخی، غصہ اور اس کرمنل جسٹس نظام کے خلاف شدید بغاوت دیکھی ۔ وہ پولیس کے نسلی تفریقی اور بے حس و ظالمانہ رویہ کے خلاف جو کچھ بھی مجھے بتاتے وہ میرے لیے ابتدا میں ناقابل یقین تھا ۔ مگر آہستہ آہستہ میرے تجربے اور تحقیق سے مجھ پہ حقیقت منکشف ہونے لگی۔ مجھے لگا کہ اس سے پہلے میں اپنے کابک میں بیٹھ کر بہت محدود امریکہ کی سر سبز و شاداب تصویر دیکھ رہی تھی۔ اصل تصویر تو کچھ اور ہی ہے۔
جیل میں پولیس آفیسر وں کی اکثریت کا انتہائ ذلت اور حقارت سے بھر پور رویہ میرے لیے دل خراش تھا۔ میرے سپروائزر نے ملازمت کی ابتداء ہی میں بتا دیا تھا کہ پولیس کے رویہ پہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ورنہ بغیر کسی جواز کے نوکری سے فارغ کردی جاؤ گی۔یعنی یہ کہ
جاگنے والوں جاگو مگر خاموش رہو۔

نسلی اعتبار سے دیکھا جاۓ تو سفید نژاد امریکیوں کے مقابلہ میں ان قیدیوں کی اکثریت ایفرو امریکیوں اور ہسپانوی کی ہے ۔مشہور ادارے pew کی تحقیقی رپورٹ (2017) کے مطابق جیل میں قید ایفرو امریکنوں کی تعداد سفید فام قیدیوں کے مقابلہ میں چھ گنا اور ہسپانیوں کے مقابلہ میں دُگنی ہے۔ یہ دہ قیدی ہیں جن کو غیر متشدد منشیات کے مجرم کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے۔ اور جنہیں بالعموم معمولی جرم کے ارتکاب کے باوجود لمبی سزاؤں اور کچھ صورتوں میں تو عمر قید کا سامنا ہے۔

آخر قیدیوں کی تعداد میں نسلی طور پہ عدم توازن کیوں ہے؟

ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ سپر پاور امریکہ کی بنیادوں کی آبیاری میں نیٹیو اور ایفرو امریکنوں کا خون ہے۔ نیٹیو امریکیوں کا تو یہ ملک تھا رہا تھا،سیاہ فام تو بحری جہازوں بھر بھر کے افریقہ سے امریکہ لاۓ گیے تاکہ نسلی اعتبار سے “ برتر” یوریپین کی غلامی کرسکیں۔
رنگ اور نسل کی تفریق کے نام پہ ظلم کا سیاہ دور جاری رہا مگر پھر اس غلامی، نسلی تفریق اور حق تلافی کے خلاف شہری حقوق کی جنگ لڑی گیئ۔ مزاحمت کے نتیجہ میں افریقہ سے لاے جانے والے غلاموں نے شہری حقوق کی بحالی کی طویل جدوجہد اور تیرہویں تر میم کے بعد 1865 میں شہری آزادی کا پروانہ تو حاصل کیا مگر سماجی رتبہ کی بحالی کی جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ ان کے خلاف نسلی اور سماجی تفریق کا مظاہرہ ہم نے 1960 کی دھائ تک ناقص تعلیمی ، رہائشی، ملازمتی ، حق راۓ دہی غرض ہر شعبہ میں جم کرو لاز کے نفاذ کی صورت دیکھا ۔
لیکن کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی یہ سلسلہ جادو کی چھڑی کی طرح یہاں پہ ٹوٹ گیا؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کیونکہ آج بھی امریکہ کے اکثر علاقوں میں بھوک، غربت اور شرمناک حد تک محرومیاں ہیں۔اور ہم جانتے ہیں کہ جرائم کی مادر آغوش غربت، محرومی اور ظلم ہے۔ وسائل سے محرومی کے ساتھ جس شہ کی فراوانی امریکہ میں اپنے عروج پہ ہے وہ ہے منشیات کا حصول۔گو منشیات کا استعمال کسی خاص نسل تک محدود نہیں لیکن مزے کی بات یہ ہی کہ قانون نافذ کرنے والے عملہ کی عمومی نگاہ شکاری کتوں کی طرح اقلیتی غریب سیاہ فا م , لاطینی ،اور مہاجرین کی جانب ہی رہتی ہے۔ بغیر جرم ثابت ہوۓ ان کے ساتھ مجرموں کا سا برتاؤ روا رکھا ہے۔ اور اکثر کو بلا کسی جواز کے یا بہت معمولی نوعیت کے جرم پہ اپنی جیلوں کی زینت بنایا جاتا ہے۔ اب جبکہ جم کروز قوانین کا خاتمہ ہو گیا ہے تو ایسا کیوں ہورہا ہے؟

منشیات کے خلاف جنگ

منشیات کسے متعلق معمولی جرائم کی بھی مد میں ایفرو امریکیوں کی اکثریت کو قید میں بند کرنے کی وجہ سمجھنے کے لیے امریکی مشہور قانون دان مشعل الیکزینڈر کی کتاب The New Jim Crow: Mass Incarceration in the Age of Colorblindness
مشعل کا درجہ رکھتی ہے۔ جسکے مطابق سیاہ رنگت والوں کو اکیسویں صدی میں بھی لاکھوں افراد کو ووٹنگ، ملازمت ، اعلی تعلیم اور شہری مراعات سے محروم کیا جا رہا ہے۔اور اس کو قانون کا درجہ دینے کے لیے “وار آن ڈرگز”کے پروگرامز کو استعمال کیا گیا۔ یہ وہ قوانین تھے کہ جو صدر نکسن (1971) کے دور سے منشیات کے خلاف لاگو ہونے شروع ہوے اور آج تک جاری ہیں۔
میرے ایک معمرایفرو امریکی کلاینٹ نے بتایا کہ کسطرح ساٹھ کی رہائ میں ان کے علاقوں میں منشیات کی بھرمار ہوئ لیکن قانونی ادارے خاموشی سے اس منشات کے دھندے سے چشم پوشی کرتے رہے۔
الیکشن کے دوران نکسن نے کالوں اور بائیں بازو کے جوشیلے ہپیز کہ جو ماروانا کا استعمال کرتے اور امریکہ اور ویتنام کی جنگ کے خلاف تھے کو اپنا “حریف” تصور کرے ہوے سخت قوانین پاس کیے اور ان کو جیلوں میں بھرا۔پھر اسی اور نوے کی دھائ میں ریگن، بش ، کلنٹن وغیرہ نے اپنے پیشرو کی راہ اپنائی اور منشیات کے استعمال کے عوامل اور اسکے علاج پہ توجہ دینے کے بجاے منشیات سے متعلق غیر متشدد افراد خاصکر کالوں سے ملک کی جیلوں کو آباد کیا۔
منشیات سے متعلق غیر متشدد جرائم میں دینے والی سزاؤں کے قوانین بھی غیر منصفانہ ہیں مثلا کریک کوکین کہ جو عموما غریب لوگ استعمال کرتے ہیں کو رکھنے کی سزا پاوڈر کوکین کے مقابلے میں ذیادہ ہے جو امیر طبقہ میں مقبول ہے۔
اسکے علاوہ کم ازکم ضروری سزا کی معیاد جس کے فیصلہ پہ جج کے ہاتھ بھی بندھے ہوۓ ہوتے ہیں۔ اور ایک معمولی جرم پہ بھی طویل سزا کاٹنی پڑتی ہے۔ اسی طرح تھر اسٹرائکس قانون جس کے تحت کوئ بھی تین جرم کے بعد معافی کی گنجائش کے بغیر پوری زندگی جیل قید میں کاٹنی پڑتی ہے۔
اسطرح منشیات کے خلاف جنگ دراصل غربت اور نامسدود حالات سے لڑنے والے افراد کی خلاف ثابت ہوئ۔ اور یہ قیدی سالہا سال کے لیے اپنے خاندان اور بچوں سے دور رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ غلامی کے دور میں ایکدوسرے سے جدا کردیے جاتے تھے۔ قید خانوں میں کوڑیوں کی اجرت پہ ڈھیروں کام لیا جاتا ہے۔ بالکل عہد غلامی کی طرح ۔ فرق یہ ہے کہ اب یہ اکیسیوں صدی کے غلام ہیں۔ تصور کریں کہ1980 میں ملک میں کل 315000 قیدی تھے جن میں 57 فیصد تشدد کرنے والے مجرم تھے آج یہ تعداد بائیس لاکھ ہے یعنی 350 فی صد اضافہ۔ اورقیدیوں کی تعداد اتنی بڑھ گیئ ہے کہ ان کو پرائیویٹ یا نجی قید خانوں کی تحویل میں دیا جارہا ہے ۔جن کا آغاز 1986 میں ہوا۔

پرائیویٹ قید خانے یا کروڑوں ڈالرز کی انڈسٹری؟؟؟

امریکہ میں تعلیمی اداروں سے ذیادہ زور اب نجی قید خانوں کی تعمیر پہ ہے ۔ نجی پرزن کور سوکcore civic اور GEO جیو کا شمار بلین کی مالیت کی صنعتوں میں ہوتا ہے۔ جہاں کوشش یہ ہوتی ہے کی ان کے بستر قیدیوں سے ہمیشہ ہی آباد رہیں۔ اس مقصد کے لیۓ اسکے وہ حکومت کے ٹھیکے دار بن کر قیدیوں کے نام پہ تجوریاں بھرتے ہیں۔ اور lobbying اور سیاست دانوں پہ لاکھوں ڈالرز خرچ کرکے قانون کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان جیلوں کا ناطہ ملک کی بڑی صنعتوں سے ہوتاہے جو انتہائ قلیل اجرت میں ان سے غلاموں کی طرح کام لیتی ہیں۔ اور اس محنت کا نتیجہ دولت کے انبار ہیں۔جسکی مالک یہ کمپنیاں ہوتی ہیں۔

جب اپنے جرم کی سزا کاٹ کے یہ قیدی آزاد ہوتے ہیں تو ان پہ عمر بھر کے لیے مجرم کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے ۔یہ کڑا وقت ہوتا ہے کہ جب جیب میں چند ڈالرز اور کوئ دوست احباب مشکل سے ہی پاس ہوتا ہے ۔ اور پھرملازمت کی ہر درخواست میں انہیں اس باکس پہ نشان لگانا ہوتا ہے جسمیں جرم(فیلینیfelony )کے متعلق پوچھا ہوتا ہے۔ اسطرح اکثریت نوکری کے لیے دھکے کھانے کے بعد دوبارہ جرم سے دوستی کرکے جیل میں چلے جاتی ہے۔اس عرصے میں رشتہ ناطے اور اعتبار بھی کچے دھاگہ کی طرح ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا انکے بغیر باپ کے پلنے والوں کا انجام بھی کچھ کم مختلف نہیں ہوتا۔ اور اسطرح سیاہ بختی کا سلسلہ نسلوں کی خبر لیتا ہے۔
کیاہے؟؟

جرم کی سزا کی حد ہونی چاہیے۔ چاہے وہ دنیا کا کوئ بھی ملک ہو۔ اگر جرم سنگین ہو تو جج سزا کی لمبی مدت کا تعین کرسکتا ہے۔ تاہم غیر متشدد سزائیں جو ڈرگ سے متعلق ہوں ان کے سلسلے میں سزا کے بجاے علاج ہو کیونکہ تحقیق بتاتی ہے کہ یہ ذہنی بیماری ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو خود اپنے رویے کو ٹٹو لیں۔ہم سب کبھ نہ کبھی جرم کرتے ہیں ۔ کبھی گاڑی رفتار سے ذیادہ تیز چلا کے تو کبھی لا ل بتی توڑ کے۔ منشیات کے مجرم بھی اسی طرح کے مجرم اور ہماری مدد کے طالب ہیں۔
اس سلسلے میں اپنی معلومات بڑھائیں۔ اور حقائق پہ مبنی اعداد وشمار اور تحقیق کی مدد سے معاملے کا گہرائ سے تجزیہ کریں۔ اس کام میں رضاکار بنیں اور مقامی اور ریاستی سطح پہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں۔تاکہ آپکی آواز قانون کا دروازہ کھٹکھٹائے اور سماجی تبدیلی کا مظہر بنے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*