تصویریں بولتی ہیں
ظُلم کی اور شقی اُلقلبی کی
ایسی داستانیں سُناتی ہیں
کہ کلیجہ پھٹنے لگتا ہے
اِن میں لکھا درد
ہڈیوں میں سرسراتا ہے
یہ درس گاہ ہے یا قتل گاہ ہے؟
فرش پہ بہتے لہو کی لالی
کہہ رہی ہے
سفّاکیت کی حد کوئی نہیں ہے
میں کیا کروں
کہ
میرے غم کی بھی
کوئی سرحد نہیں ہے
ماں کا دِل، اپنے یا پرائے
ہر بچے کے لیئے
ایک ہی انداز میں دھڑکتا ہے
میرا لخت جگر پریشاں ہے
یہ ماں کو آج کیا ہو گیا ہے
بار بار میرے چہرے کو تکتی ہے
میرے آنسو نہیں تھمتے
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے کانوں میں فون کی گھنٹی
ہتھوڑے کی مانند بجتی ہے
ذہن میں
ایک ہی جملے کی تکرار گونجتی ہے
سانس سینے میں اٹکتی ہے
مریض غم سو نہیں سکتی
یہ کون ہے؟
جو تڑپ کے کہہ رہا ہے
جانِ پدر کُجا ہستی؟
جانِ پدر کُجا ہستی؟