واشنگٹن کی کالی دیوار

اپنی فیروز بختی پہ نازاں

سیہ پوش دیوارپر

آبِ زرسے لکھے نام

پڑھتے ہوئے

میری آنکھیں پھسلتی ہوئی

نیہہ پرجاگریں

الغِیاث! الاَماں!۔

ایک بستی کے جسموں کا گارا

سیہ ماتمی مرمروں کے تلے

اس کی بنیاد کا رزق تھے

زائرین

جوق در جوق

اس غم زدہ دل گرفتہ کو

اشکوں کے نذرانے دیتے

فقط آبِ زرسے لکھے نام گنتے رہے

اور وہ خستہ تن

ویتنام بدن

جنکی تعداد گننے کو

گنتی کاکوئی عدد ہی نہ تھا

جنکے جسموں کے گارے سے ڈھالی ہوئی

خشت

بنیاد سے کالی دیوارتھامے تھی

کوئی اچٹتی ہوئی اک نظربھی ادھرنہ گئی

میری آنکھیں دھنسی جا رہی تھیں

پگھلے جسموں کی دلدل میں

آ نکھیں دھنسی جا رہی تھی

کہ دیوارکی ایک ٹھوکر

حقارت بھری ایک ٹھوکرنے

واں سے کہاں لا کے پھینکا

میری سوسالہ غربت، خجالت جہالت کی تاریخ ہے

میرا ماحول ہے

اورمیں ہوں

شراب طہورہ کی

خواہش، طلب اورلذت میں دھت

اپنی گرتی حویلی کی چوکھٹ سے لپٹی

مری نیم مردہ سی آنکھیں ہیں

سوچیں ہیں، نظمیں ہیں

اورآب زرسے لکھے نام

مجھ پرہنسے جارہے ہیں

اونچا اونچا ہنسے جارہے ہیں

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*