ن م دانش

دانش کا تعلق پاکستان میں پروان چڑھنے والی اس نسل سے ہے، کہ جس نے شعور کی پختگی کو ضیا الحق کی آمریت کے دور میں عبور کیا۔ 1977ء میں نافذ ہونے والے مارشل لا کا زمانہ جبر، تشدد اور بندشوں کا تھا۔ جب سرِعام، حق گو صحافیوں کو جرات مندی کی پاداش میں کوڑے لگ رہے تھے۔ دھڑا دھڑ چھاپے پڑرہے تھے، اور سچائی کے علم بردار رسائل کے ڈیکلیریشن منسوخ ہورہے تھے، یا مل ہی نہیں رہے تھے۔

ان تمام کارروائیوں کا ردِعمل غصہ و جھنجلاہٹ کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا۔ لامحالہ تخلیق کاروں نے اپنی دلی کیفیت کے اظہار کے لیے علامتوں اور استعاروں کا سہارا لیا۔ برملا اظہار کے بجائے زیرِلبی کا انتخاب ہوا۔

اس پر آشوب دور میں ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والے ذہین و فطین طالب علم نور محمد دانش کی شعلہ بیان تقاریر اور شاعری احتجاج کی علامت تھیں۔ ظلم کے خلاف احتجاج کا یہ شعلہ بھڑکتا ہی گیا۔ ان گنت ملنے والے انعامات اور ٹرافیوں کی چمک دمک ان کے اندر دہکتے غم و غصہ کے شعلوں کے سامنے ماند تھی۔

لیاری کے سیاہ فام بلوچ باسی دانش کی شاعری کی فضا کا رنگ جداگانہ تھا۔ انھوں نے اپنے اطراف ذاتی تجربہ کی صورت میں جو کچھ دیکھا، اسے حرف بہ حرف رقم کیا۔
خون دیکھتا ہوں میں دل سے لے کر گلیوں تک
یہ عذابِ بینائی کون سی نئی شے ہے

یا یہ شعر کہ
اپنے خون اور خوابوں کے رنگوں سے غم کی سیاہ رات میں
دل کی دیوار پر ہم بھی لکھتے کبھی، آسماں زرد ہے

ایک اور شعر ملاحظہ ہو
اک درد ہے پھیلا ہوا، اک آگ ہے دہکی ہوئی
حدِ گماں تک ہے دھواں، نہ وقت ہے نہ لوگ ہیں

اس طرح دانش نے روایتی غزل میں عاشقانہ ہجر و وصال، بوس و کنار کے مناظر کو خون، غم کی سیاہ رات، زرد آسمان، آگ، دھواں جیسی علامتوں میں بدل دیا، کہ یہ عذاب کی ایسی آندھی تھی، جس نے پورے ملک کو نا امیدی اور محرومی کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ جس کی جھلکیاں غزل کے اشعار میں تو نظر آتی ہیں، لیکن نظموں میں اس دکھ اور احتجاج میں شدت اور روانی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ بظاہر مکمل نظم بھی کسی نظم کا تسلسل ہے۔ دانش کے مطابق یہ نظمیں محض فیشن کے طور پہ نہیں لکھی گئیں بلکہ ان کے ذاتی تجربے کا نچوڑ ہیں۔ اپنی کتاب کے اظہاریے میں وہ لکھتے ہیں۔
”اردو میں، میں نے اس موضوع کے حوالے سے ذاتی سطح کی نظمیں نہیں دیکھی ہیں، کیوں کہ یہ اردو بولنے والوں کا مسئلہ نہیں ہے“۔

گزرے دنوں ہم نے دانش سے کچھ گفتگو کی، جو امریکا کی ریاست کناٹیکٹ (Connecticut) میں اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ اقامت پذیر ہیں۔ یوں تو دانش عمدہ نثر نویس (افسانہ، تنقید) اور شاعر دونوں ہی ہیں لیکن ہم نے یہ گفتگو ان کے تخلیقی سفر زندگی سے وابستہ سماجی مسائل اور شاعری کے حوالے سے کی۔ یہ گفتگو درج ذیل ہے۔

میں: دانش کچھ اپنی زندگی کی بابت فرمائیں۔
دانش : میں لیاری کے علاقہ بغدادی (دریا آباد میں واقع ہے) رہتا تھا۔ ایک زمانے میں یہاں سمندر کا پانی تھا کہ جس پر مٹی ڈال کر مکان بنائے اور آباد کیے گئے۔ یہاں میری ننھیال کا آبائی مکان تھا۔ میرے والد کا نام یعقوب تھا، جو بحری جہازوں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔ اور اپنے کام کے ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ میری امی اور ابا بہت پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے۔ مگر انھوں نے میری تعلیم پر بہت زور دیا۔

میں: آپ کے بچپن کا لیاری کیسا تھا؟
دانش: ہمارا علاقہ بہت محفوظ اور پرامن تھا۔ ایم کیو ایم کی لسانی سیاست سے قبل کسی نے لسانیت کی بنیاد پہ کسی کو تھپڑ بھی نہ مارا تھا۔ ہمارا علاقہ نچلے یا نچلے درمیانی طبقے کی آبادی پہ مشتمل تھا، اور اسے ویسے ہی مسائل کا سامنا تھا، جو ایسی آبادی میں ہوتے ہیں۔ مثلا بلدیاتی مسائل، غربت اور بے روزگاری۔ میں نے غربت دیکھی ہے، فاقے بھی کیے ہیں، لیکن علاقے میں پھر بھی منشیات اور بے امنی نہ تھی۔

دانش نے مزید کہا، ”مجھے بچپن میں پڑھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔ کتابیں میرا اوڑھنا اور بچھونا تھیں۔ مطالعے کی وجہ سے میں شروع ہی سے بہت میچور تھا۔ قرآن مجید تو اسکول جانے سے پہلے ہی ختم کرلیا تھا۔ جس کی وجہ سے میں بہت جلد ہی اخبار ’جنگ‘ میں ٹارزن کی کہانیاں پڑھنے لگا۔ میرے شوق کو دیکھتے ہوئے اماں نے دوسری تیسری جماعت میں ’جنگ‘ لگوادیا تھا۔ چوتھی پانچویں میں ڈائجسٹ پڑھنے لگا اور ساتویں آٹھویں میں مجنوں گورکھ پوری کی ’ادب اور زندگی‘ پڑھ لی تھی۔ جس نے ترقی پسند سوچ کے حوالے سے سب سے زیادہ اثرات ڈالے۔ اس کے بعد کے برسوں میں علامہ اقبال کی شاعری، ان کے سیاسی افکار، قراۃ العین کی ’آگ کا دریا‘، ن م راشد کی ’ماورا‘، محمد قاسم کی شاہ کار کتابیں؛ الغرض آٹھویں جماعت تک میں جید ہوگیا تھا“۔

”دانش اپنی کم عمری میں نظریاتی کتابوں کا ہضم کر لینا کچھ حیران کن سا لگتا ہے۔ آخر یہ کتابیں کہاں سے ملتی تھیں“؟ ہم نے حیرانی کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا، ”دراصل ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں محلہ لائبریریاں بنائی گئیں تھیں، بس وہیں سے یہ کتابیں ملتی تھیں۔ مزید جن کتابوں نے ترقی پسندی کے بیج بوئے۔ ان میں ماؤزے تنگ کے مضامین، عمل کے بارے میں اور تضاد کے بارے میں، لینن کے مضامین اور غلام رسول مہر کی ترجمہ کی ہوئی کتاب، ’وہ کتابیں جنھوں نے میری زندگی بدل ڈالی‘، بہت شوق سے پڑھی۔ کارل مارکس کی ’داس کیپیٹل‘ کی وجہ سے میری دل چسپی مارکس ازم میں ہوئی۔ اس زمانے میں نفسیات بھی شوق سے پڑھ رہا تھا۔ خاص کر فرائیڈ، ایرک فرام اور سارتر کی وجودیت کو پڑھا۔ میری نظر میں مارکس بہت اہم سیاسی فلاسفر تھے، کہ جو مزدوروں کے حقوق کے داعی تھے۔ پورے قرآن میں اس نظریہ سے کوئی تضاد نہیں“۔

ایک ٹھوس اور ترقی پسندانہ نظریہ کے ساتھ پروان چڑھنے والے دانش نے مزید کہا، ”میرا میٹرک اور اس کے بعد کا پندرہ سال کا دورانیہ اہم تھا کہ جب میرے بچپن کے زمانے میں لیاری کے صحافی۔ ’’نادر شاہ عادل‘‘ نے جو میرے مینٹر تھے، اصلاح معاشرہ کے نام سے فری ٹیوشن سینٹر کی بنیاد رکھی۔ جو بعد میں اسٹریٹ اسکول بن گیا۔ اس آئیڈیا کی بنیاد پہ ہم نے کالج میں بلوچ ایجوکیشن سینٹر کھولا۔ اپنے کاموں، مثلا کالج یا ملازمت سے آکے اس سینٹر میں گلی کوچوں میں پھرنے والے بچوں کو مفت تعلیم دیتے۔ اس میں محلے کے نوجوان برسوں رضاکارانہ طور پر شریک رہے۔ ہم گلی یا سڑک کو بند کر کے مکان کے پچھلے حصوں کو بلیک بورڈ کی طرح استعمال کرتے۔ زمین پہ ٹاٹ بچھا دیے جاتے اور اس طرح دو تین سو بچے مفت تعلیم سے مستفید ہوتے“۔

’’یہ تو بہت ترقی پسندانہ عمل تھا‘‘۔ ہم نے تحسین آمیز لہجے میں کہا۔
’’باوجود اس کے کہ وہاں غربت تھی اور غربت و افلاس کو برقرار رکھنے کے لیے عام لوگوں کے لیے کچی شراب بھی رکھی ہوئی تھی، لیکن شرابی گنتی ہی کے تھے۔ زیادہ سے زیادہ کبھی چرس اور بھنگ کا نشہ ہوتا۔ جو عام نہ تھا۔ علاقے میں قائم کھوکھوں یا ہوٹلوں میں پاکستانی اور ہندوستانی نئے گانے چل رہے ہوتے اور لوگ دور دور سے یہاں آتے یہاں بیٹھنے کے لیے“۔

انھوں نے مزید کہا، ”غربت کے باوجود جو بات قابل ذکر تھی، وہ لیاری کے علاقے میں ترقی پسندی کا رجحان تھا۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں ترقی پسند سیاست میں لیاری کا خاص مقام تھا۔ اسی پڑھی لکھی اور ترقی پسند سوچ کے تحت ہم سماجی تبدیلی کے خواہاں تھے۔ جس کا ثبوت لیاری نوجوان تحریک کی تشکیل تھی۔ اس تحریک سے مختلف تنظیموں کے نوجوان وابستہ تھے۔ مثلا؛ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن، سندھ این ایس ایف، پی ایس ایف وغیرہ۔ یہ تنظیمیں سماجی اور سیاسی بنیادوں پہ تھیں، مگر میں سماجی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی نقطہ نظر بھی رکھتا تھا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھا“۔

ہم نے کہا، ”اپنی ترقی پسندی کے حوالے سے نظموں بالخصوص لیاری کا ذکر کریں“۔
دانش نے برجستہ جواب دیا، ”بہت سی نظمیں ہیں جو شاعر لکھتا ہے، اس کے نظریے سے جڑی ہوتی ہیں۔ اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے وہ اپنے وجود کا اظہار کررہا ہوتا ہے۔ یعنی زندگی کو کلیت میں دیکھنے کا تجربہ۔ لیاری کیا میری پوری شاعری ہی میرے ترقی پسند نظریے کی دین ہے۔ میرے خیال میں یہاں اچھی شاعری اس لیے نہیں ہورہی کہ وہ کسی نظریے سے وابستہ نہیں“۔

دانش نے مزید کہا، ”ضیا کے دور میں لیاری کے سیاسی بیداری کا یہ عالم تھا کہ حکومت کے خلاف جلسے پریس کلب میں ہوتے، یا پھر لیاری کے ہشت چوک، مولوی عثمان کے پارک میں۔ اس زمانے میں (اسی کی دہائی میں) پروفیسر جمال نقوی، جام ساقی وغیرہ جیل سے رہا ہوئے، اور مولوی عثمان پارک میں جلسہ ہوا تو اس میں جون ایلیا بھی تھے۔ انھوں نے کہا، دانش تم الگ سے ہو اور تمھاری شاعری بھی الگ سے ہونی چاہیے؛ تو میں نے سوچا یہ بات تو ہے کہ میں غزل لکھنے کے لیے مصرِع سے مصرع نہ لگاؤں۔ الگ سے ہوں تو شاعری بھی الگ سے ہونی چاہیے، کہ میں ادب اور زندگی کو کیسے دیکھتا ہوں۔ وہی سارا کام ہونا چاہیے۔ لہذا پھر میری شاعری کالے آدمیوں اور ارد گرد کے حوالے سے ہوئی۔ میں ترقی پسند تحریکوں سے وابستہ رہا اور ایمان محبت کی آفاقیت پہ رکھا“۔

”تو گویا۔ ’لیاری‘ اور دوسری نظمیں اسی سوچ کا حصہ ہیں“؟
”جی ہاں یہ احتجاجی شاعری اسی ارد گرد کے ماحول اور ناانصافی کے خلاف تھی۔ ہونا تو یہ تھا کہ لیاری جو کراچی کی ماں کا درجہ رکھتا ہے، اس کے عوام کو مزدوری، تعلیم اور بنیادی ضروریات مہیا کرنا تھیں، لیکن اس کو نظر انداز کیا گیا؛ ماسوا بھٹو کی حکومت کے۔ بھٹو نے چاہے لاکھ سیاسی غلطیاں کی ہوں، وہ عوام سے جڑنا جانتا تھا۔ اس کے دور میں لیاری کے عوام کو شپ یارڈ، اسٹیل ملز میں نوکریاں ملیں، اور کچھ ادارے بھی بنائے گئے۔ جیسے لیاری جنرل اسپتال کا قیام، پانی کی فراہمی کی اسکیمیں اور نکاس کا انتظام۔ اس کے علاوہ پاسپورٹ بنانے کا مرحلہ آسان کیا۔ اس طرح لیاری کے عوام کو گلف میں ملازمتیں ملیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ضیا کا دور آیا اور بھٹو کو پھانسی ہوئی تو وہاں کی عورتیں سینہ کوبی کرتی ہوئی نکل پڑیں۔ مجھے اخبار میں پڑھی خبر یاد آ گئی“۔

”لیاری میری طویل نظم کا ابتدائیہ تھا۔ چوں کہ ہم بھی کالے اور مارجینلائز (جن سے تفریقی اور تحقیری برتاؤ ہو) ہیں۔ جس طرح دنیا کے اور ممالک میں لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، میری شاعری اس رویے کے خلاف تھی۔ گو میں بہت طویل نظم لکھنا چاہ رہا تھا، لیکن جس طاقت سے نظم شروع ہوئی۔ یہ اسی طرح رُک گئی، اور میں زبردستی کبھی نہیں لکھتا، تو میں نے ختم کر دی۔ لیکن پھر دوسری نظمیں اس کا تسلسل ثابت ہوئیں۔ مثلا ’بدصورتی کا حسن‘، ’آدم کے بیٹے‘، ’احتجاج‘ وغیرہ“۔

”دانش آپ کی ان نظموں میں شدت ہے، غصہ، فرسٹریشن اور بہت حد تک مایوسی بھی۔ آپ اردو کالج میں پڑھا رہے تھے؛ کامیاب شاعر، شعلہ بیاں مقرر اور معتبر نام تصور کیے جاتے تھے؛ خاص کر اردو ادب کے حوالے سے، لیکن پھر آپ نے امریکا نقل مکانی کرلی؟ اس سلسلے میں آپ کا ایک شعر بھی یاد آ رہا ہے۔
ہوا مضطرب، بچے خاموش ہیں
عجب درد نقل مکانی میں ہے
یہ فیصلہ کیوں کیا؟

”میں نے امریکا آنے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ شادی ہوئی تو سالے صاحب نے امریکا اسپانسر کیا۔ باری بھی آگئی، مگر دو سال تک خبر نہ لی۔ اس دوران یہ ہوا کہ یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے اپلائی کیا۔ میری اردو میں فرسٹ پوزیشن تھی، لیکن مختلف حیلوں سے مجھے روکا گیا۔ پیپر جمع کر دینے کے باوجود انٹرویو لیٹر روک دیا گیا۔ تیسری بار میں نے انٹرویو کوالیفائی کرلیا۔ سب سے زیادہ پوائنٹس لیے؛ انٹرویو میں جتنا مشکل سوال ہوتا اتنا ہی مجھے اظہارِ علم کا موقع ملتا۔ انٹرویو میرے لیے کھیل تھا؛ میں ٹاپ پہ تھا۔ لوگوں سے مبارک باد مل رہی تھیں۔ مگر پھر نوکری میرے بجائے کسی اور کو ملی تو میں نے سوچا، میں یہاں دانشور اور پروفیسر بننا افورڈ نہیں کر سکتا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں بلوچ ہوں اور اس ناتے سے ’آؤٹ سائیڈر‘ ہوں؛ پھر مجھے لگا کہ میں جیسے میں قدرت کے خلاف کام کر رہا ہوں۔ میرے بچے تھے، مجھے ان کا بھی سوچنا تھا۔ 1998ء میں امریکا نہ جانے کے فیصلے پہ دوبارہ غور کیا، 2000ء میں یہاں نقل مکانی کی“۔

”آپ کا ایک جملہ ہے جو آپ نے کسی انٹرویو میں کہا تھا کہ میں تیسری دنیا کے ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننے کے بجائے پہلے درجے کے ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننے کو ترجیح دوں گا۔ کیا کبھی یہاں آنے کے فیصلے پہ تاسف ہوا“؟
”نہیں مجھے یہاں نقل مکانی کے فیصلے پہ کوئی پچھتاوا نہیں۔ اگر آپ زندگی کے مدارج پر غور کریں تو پتا چلے گا کہ زندگی کبھی ایک نہج پہ نہیں چلتی“۔

”آج کل کیا مصروفیات ہیں“؟
”میری زندگی میں ایک نیا رُخ مجھ پہ آشکار ہوا ہے، جس کو اگر میں بیان کروں تو کوئی سمجھ نہیں سکتا۔ یہ روحانی دنیا کا تصور ہے۔ یہ دنیا جوں جوں کھلتی جا رہی ہے۔ مجھے مزید ترقی پسند بناتی جارہی ہے؛ چوں کہ خدا ظلم پسند نہیں کرتا، اس طرح روحانیت آپ کو ظلم کے خلاف ریڈیکل بنا دیتی ہے اور آپ ظلم اور زیادتی کے خلاف مزید شدت سے آواز اٹھاتے ہیں“۔

دانش نے اپنے روحانی سفر کا بہت انکساری سے ذکر کیا، اور اس کے ساتھ ہی ہم نے ان کا یہ شعر دُہراتے ہوئے، ان سے رُخصت طلب کی۔
اگر کبھی تم ملو گے اس سے، یہ جان لو نون میم راشد
وہ آدمی ہے جو درد پاتا ہے، خواب بوتا ہے نیم شب کو

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*