سرمدی آگ

سرمدی آگ تھی

یا ابد کاکوئی استعارہ تھی، چکھی تھی جو

کیسی لوتھی!۔

خنک سی تپک تھی

تذبذب کے جتنے بھی چھینٹے دئے

اوربڑھتی گئی

دھڑکنوں میں دھڑکتی ہوئی

سانس میں راگ اورسرْ سی بہتی ہوئی

پھول سے جیسے جلتے توے پرہنسیں

ننھے ننھے ستاروں کے وہ گل کھلا تی ہو

موْ بہ موْرچ گئی

سوچ کا

حرف کا

نظم کا

خاک دانِ زمستاں

خنک آگ میں گھرگیا

وقت چونکا

رْکا اورپھر

سرمدی آگ میں تھم گیا

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*